کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 201
1. ’’حقیقت یہ ہے کہ ’مولوی‘ نہ کسی شخص کا خطاب ہے اور نہ کسی زمانہ سے مختص۔ یہ ایک ذہنیت ہے۔ پرانا مولوی جو کہے گا اور کرے گا، ماڈرن مولوی اس سے بہتر مظاہرہ نہیں کرسکتا اور وہی کچھ کہے گا، البتہ اس کے ہاں انگریزی کے بعض الفاظ کا استعمال ہوگا۔‘‘[1] اس عبارت میں ’ماڈرن مولوی‘سے مراد سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ، اس ضمن میں تفصیلی بحث ان شاء اللہ کبھی آئندہ ہوگی۔ 2. ’’اہل مذہب کا دوسرا طبقہ وہ ہے جس کے نمائندے ہمارے ’علماء کرام‘ یا مولوی صاحبان ہیں ۔ مقصد زیر نظر کے لئے ان کی حیثیت وہی ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب اہل کتاب کی تھی۔ ان کا مذہب اسی قسم کا ہے جس قسم کا مذہب عہد ِنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا آج کل کے اہل کتاب کا ہے۔‘‘[2] ذرا اس ڈاکہ زنی اور ’چوری‘ کو ملاحظہ فرمائیے کہ پرویز صاحب خود تو اہل کتاب میں سے ایک فرزند یہودیت کارل مارکس سے پورا اشتراکی نظامِ معیشت لیتے ہیں اور بقیہ اہل کتاب سے خواہ وہ یہودی ہوں یا عیسائی فاسد تمدن اور فاجر معاشرت کے اقدار و اطوار کو قبول کرتے ہیں اور دورِ حاضر کے اس ’دین الٰہی‘ کو ’قرآنی نظام‘ قرار دیتے ہیں اور اس پر مزید ’سینہ زوری‘ یہ کہ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ ’’ان (علما) کا مذہب اسی قسم کا ہے، جس قسم کا مذہب عہد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا آج کل کے اہل کتاب کا ہے۔‘‘ 3. ’’اربابِ مذہب کے علاوہ اربابِ اقتدار کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ یہاں ’قرآنی معاشرہ‘ نہ بننے پائے۔ اس لئے کہ ان کی تمام مفاد پرستیاں خوابِ پریشاں بن کر رہ جاتی ہیں ، قرآن جس طرح مذہبی پیشوائیت کا منکر ہے اسی طرح انسانی استبداد اور سرمایہ پرستی کو بھی جڑ سے اُکھاڑتا ہے۔ یہ ہے وہ چومکھیا لڑائی، جو طلوعِ اسلام کو یہاں لڑنی پڑ رہی ہے۔ مُلاّ کے پاس نہ علم ہے نہ بصیرت، نہ دلائل ہوتے ہیں نہ براہین۔‘‘[3] پرویز صاحب کے چونکہ جملہ اربابِ اقتدار سے زندگی بھر اچھے تعلقات رہے ہیں ، اس لئے اُن سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ ان لوگوں کی واقعی یہی خواہش ہوتی ہے کہ یہاں قرآنی معاشرہ نہ بننے پائے، لیکن ’مفکر ِقرآن‘ ہیں کہ ان کے لسان و قلم کا پورا زور اور دل و دماغ کی