کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 200
1. علماے اُمت کے خلاف نفرت کی مہم کو بھرپور انداز میں جاری رکھنا۔ 2. جماعت ِاسلامی اور مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف خاص طور پر یلغاری مہم کو برقرار رکھنا۔ 3. انکار ِ سنت کے لئے ارتیابی مہم اور تشکیکی تحریک کو پوری قوت سے چلائے رکھنا۔ 4. اصحابِ اقتدار سے استمتاعی تعلقات قائم رکھنا، مگر اُنہیں چھپائے رکھنا۔ یہ طلوعِ اسلام کی پالیسی کے چار مستقل اجزا ہیں ، اور پرویز صاحب کی ساری سرگرمیاں انہی چار پہلوؤں پر محیط رہی ہیں ۔ یہاں ہم صرف اس پالیسی کے جزو اوّل تک ہی اپنی گذارشات کو محدود رکھیں گے۔ باقی نکات پر طلوع اسلام کی دلچسپیوں کی تفصیل کسی اور فرصت پر اُٹھا رکھتے ہیں ۔ علما کے خلاف نفرت کی مہم چونکہ علما کرام پرویز صاحب کے پیش کردہ اُس قرآنی نظامِ حیات کے منکر ہیں ۔ جس کے معاشرتی اجزا، مغرب کے فاسد تمدن سے اور معاشی نظام،پورے کا پورا اشتراکیت سے ماخوذ ہے، اس لئے وہ علما کے خلاف انتہائی تحقیر آمیز اور معاندانہ رویہ اختیار کرتے ہیں ، تمام دنیا وجہان کی سمیٹی ہوئی برائیوں کو لفظ ’ملاَّ‘ یا ’مولوی‘ میں سمو کر اسے علما سے منسوب کرتے رہنا ’مفکر ِقرآن‘ کا مستقل شیوہ رہا ہے۔ پھر ’ملاًّ‘ یا ’مولوی‘ کا یہ لفظ کسی خاص عالم ِدین کے لئے مخصوص نہ تھا، بلکہ ہر وہ عالم مُلاًّ یا ’مولوی‘ تھا جو قرآن و سنت پر مبنی نظامِ حیات کا قائل تھا اور اس نظامِ زندگی کا منکر تھا جسے ’مفکر قرآن‘ صاحب نے مغربی معاشرت کے اجزا کو اشتراکی نظامِ معیشت کے ساتھ پیوندکاری کرتے ہوئے پیش کیا ہے۔ ان کے نزدیک مغربی معاشرت کے اجزا اور اشتراکیت کا یہ ملغوبہ تو ’قرآنی نظامِ حیات‘ تھا، مگر علماے کرام کا قرآن و سنت پر مبنی نظام محض ایک ’عجمی اسلام‘ تھا جو ’عجمی سازش‘ کا نتیجہ تھا۔ الغرض پرویز صاحب نے علماے کرام کے خلاف جو نفرت انگیز مہم اپنے انتہائی معاندانہ جوش و خروش کے ساتھ جاری و ساری رکھی، اس کا ہلکا سا اندازہ مندرجہ ذیل اقتباسات سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ میرا ارادہ یہی تھا کہ علما کے خلاف اقتباسات کو پیش کرنے پر ہی اکتفا کیا جاتا لیکن جب اقتباسات نقل کئے جارہے تھے تو اس وقت ارتجالاً ہلکا پھلکا اور مختصر سا تنقیدی تبصرہ بھی نوکِ قلم پر آگیا۔