کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 199
کا یہ اسلام، آج کے انتہائی ’ارتقا یافتہ دور‘ میں عقل و فکر کے تقاضوں کو پورا کرسکتا ہے؟ __ یہ اور اس طرح کے گونا گوں سوالات چھیڑ چھیڑ کر، اُنہیں مختلف اسالیب و پیرائیوں میں ، دُہرا دُہرا کر پرویز صاحب (اور طلوعِ اسلام) نے ایک طرف لوگوں کے ذہنوں کو مسموم کرنا شروع کردیا اور دوسری طرف حکمرانوں میں سے ہر ایک اونگھتے ہوئے کو ٹھیلنے کا بہانہ مل گیا اور چونکہ یہ اسلامی نظام قرآن و سنت پر مبنی تھا، اس لئے سنت کے بارے میں بھی، ژولیدہ فکری پیدا کرنے کے لئے ’مفکر ِقرآن‘ مصروفِ جہاد ہوگئے۔ سنت ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساقط الاعتبار قرار دینے کے لئے طلوعِ اسلام میں ایک ارتیابی مہم اور تشکیکی تحریک چلائی گئی۔ جس طرح اسلامی نظام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لئے مختلف اسالیب اور متنوع انداز اختیار کئے گئے، بالکل اسی طرح سنت ِرسول کے بارے میں بھی، اُسلوب و انداز کو بدل بدل کر اور طرح طرح کے سوالات کو چھیڑ چھیڑ کر، دماغوں کو پراگندہ کرنے کی کوشش کی گئی اور ایسا کرتے ہوئے ایک طرف تو علماے کرام کا اِستخفاف اُڑایا جاتا کہ یہ لوگ علم سے کورے، بصیرت سے عاری، قرآن سے نابلد، دلائل سے محروم اور تقاضاے وقت سے بے خبر ہیں جو طلوعِ اسلام کے سوالات اوردلائل کا جواب تک نہیں دے سکتے اور دوسری طرف خود مظلوم بن کر اپنے قارئین کو خود پرویز صاحب (اور طلوعِ اسلام) یہ تاثر دیتے رہے کہ علماے کرام اور دینی جماعتوں کے زعما ان کے خلاف جھوٹے پراپیگنڈے، باطل الزامات اور افترا پردازیوں کے ذریعہ اُن پر ظلم ڈھا رہے ہیں اور پھر عوام الناس سے یہ اخلاقی اپیلیں کی جاتیں کہ وہ علماے کرام اور دینی جماعتوں کو اس غیر اخلاقی طرزِ عمل سے باز رکھنے کی کوشش کریں حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ یہ اور اس قسم کی تھیں وہ دلچسپیاں اور سرگرمیاں ، جن میں طلوع اسلام پاکستان کے ابتدائی دور میں مگن اور منہمک تھا۔
طلوعِ اسلام کی چہار گونہ سرگرمیاں
طلوعِ اسلام، ہفتہ وار ہو یا ماہانہ، پرویز صاحب کے دروسِ قرآن ہوں یا کنونشن کے خطابات، ان سب میں جن اُمور کو سب سے بڑھ کر اہمیت دی جاتی تھی اور جن پر لسان و قلم اور دل و دماغ کی ساری قوتیں اور قابلیّتیں صرف کی جاتی تھیں وہ مندرجہ ذیل چار اُمور ہیں :