کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 198
تھے، ان کے گھروں میں دنیا جہاں کے سامان عیش و عشرت موجود تھے لیکن جاے نماز تک نہ ملتا تھا۔ رہن سہن، بودوباش، طرزِ زندگی، لباس اور چال ڈھال سب مغربی رنگ میں مصبوغ تھے۔ نہ وہ اسلام کا مطالعہ رکھتے تھے اور نہ ہی عملی زندگی میں اسلام کے اثرات دکھائی دیتے تھے، اس لئے نہ وہ اسلام کو جانتے تھے اور نہ وہ اسے نافذ کرنے کی کوئی مخلصانہ نیت رکھتے تھے، لیکن عوام الناس، علماے کرام اور دینی جماعتوں کی طرف سے مطالبہ نفاذِ اسلام کے لئے عائد کئے جانے والے دباؤ پر حکمران زِچ ہوکر پیچ و تاب کھا رہے تھے اور اربابِ اقتدار کے لئے اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ سانپ کے منہ میں چھچھوندر والا معاملہ بن چکا تھا کہ نہ ہی اُگلے بنے اور نہ ہی نگلے بنے؛ نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن! وہ قولاً یہ اعلان کر نہیں سکتے تھے کہ ’’ہم اسلام کو نافذ نہیں کریں گے۔‘‘ اور عملاً ایسا کرنے میں وہ مخلص ہوتے بھی تو اسلام سے ناواقفیت کے باعث ایسا کر بھی نہیں سکتے تھے!! غلام احمد پرویز کی خدمت ِ سرکار ایسے کٹھن وقت میں جناب غلام احمد پرویز صاحب حکمرانوں کے کام آئے اور اُنہوں نے اسلامی نظام میں ، جس کے نفاذ کے لئے علما اور عوام دباؤ ڈال رہے تھے، کیڑے نکالنا شروع کردیے، اور سرے سے اسلامی نظام اور اس کے تصور ہی کو ناقابل عمل قرار دینا شروع کردیا اور اس قسم کا پراپیگنڈہ کرتے ہوئے آسمان سر پر اُٹھا لیا کہ__’’بھلا اس تہذیب و تمدن کے روشن دور میں چور کو قطع ِید کی سزا دی جائے گی؟ زانی محصن کو رجم اور کنوارے زناکاروں کو ضربِ تازیانہ کا نشانہ بنایا جائے گا؟ جنگی قیدیوں کو بعد از تقسیم، غلام اور ان کی عورتوں کو کنیزیں بنا کر رکھا جائے گا؟ پھر یہاں کئی فرقے موجود ہیں ، کس فرقے کی فقہ (بلکہ اسلام) کو نافذ کیا جائے گا؟ کیا باقی فرقے، کسی ایک فرقے کی فقہ کے نفاذ کو گوارا کرلیں گے؟ جو علما، نماز کی اختلافی جزئیات کو ختم کرکے، کوئی متفق علیہ شکل ِنماز طے نہیں کرسکے، وہ بھلا متفقہ دستور وآئین کی تشکیل میں کامیاب ہوجائیں گے؟ تب بھلا اسلامی نظام میں فیصلے کا آخری اختیار کیا علما کے ہاتھ میں نہیں آجائے گا؟ اگر ایسا ہوا تو کیا یہ مذہبی پیشوائیت (Priesthood) نہیں ہوگی؟ پھر بھلا یہ اسلامی نظام، کیا آج کے ’ترقی یافتہ‘ اور ’روشن دور‘ میں چل بھی سکے گا؟ کیا علما