کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 197
اس کے برعکس جملہ علماے کرام قرآن و سنت کی بنیاد پر جو نقشۂ زندگی پیش کرتے ہیں ، وہ نہ صرف یہ کہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہے، بلکہ اُس ’نظامِ ربوبیت‘ کے بھی خلاف ہے جسے پرویز صاحب نے اشتراکیت پر قرآنی ٹھپہ لگا کر پیش کیا ہے۔ رہا معاشرتی نظام، تو اس کے جملہ اجزا قرآن و سنت کی روشنی میں ، مغربی معاشرت کے تمام اجزا و عناصر کے بالکل متضاد اور مخالف ہیں ۔ لیکن پرویز صاحب ، مغربی تمدن و ثقافت سے ماخوذ معاشرتی ڈھانچے کو جب اشتراکیت سے اخذ کئے ہوئے معاشی نظام کے ساتھ ملا کر پیش کرتے ہیں تو اُسے ’قرآنی نظامِ حیات‘ کا نام دیتے ہیں ، اور علماے امت کے قرآن و سنت پر مبنی نظامِ حیات کی یہ کہہ کر مخالفت کرتے ہیں ، کہ یہ ’عجمی اسلام‘ ہے۔ رہا ’خالص عربی اسلام‘ تو اس کے اجزاے معاشرت اقوامِ مغرب ہی میں پائے جاتے ہیں ۔ اس کا معاشی نظام بغیر کسی قرآنی یا آسمانی ہدایت کے حضرت کارل مارکس اور اس کے خلیفہ خاص حضرت اینجلز ہی سمجھ سکے ہیں اور اب اس ’خالص عربی اسلام‘ کی عملی شکل روس، چین اور دیگر ممالک میں نظر آتی ہے۔ فریقین میں اصل اختلاف دونوں کے نظام ہائے حیات کا تھا، لیکن پرویز صاحب نے تہذیب ِجدید سے اخذ کردہ معاشی نظام اور اس کے معاشرتی اجزا کو ملا کر’قرآنی نظام‘ قرار دیا اور جملہ علماے کرام پر الزام عائد کیا کہ وہ ’قرآنی نظام‘ کے مخالف ہیں اور اس کے ساتھ ہی بڑی بلند آہنگی کے ساتھ یہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا کہ علما کا قرآن و سنت پر مبنی نظامِ زندگی، ’خلافِ قرآن‘ اور ’عجمی اسلام‘ ہے، اور یوں پرویز صاحب اس کے نفاذ کی راہ میں روڑے اٹکانے پر کمر بستہ ہوگئے۔ زعماے مسلم لیگ کی جان کو دو گونہ عذاب زعماے مسلم لیگ نے متحدہ ہندوستان میں علیحدہ وطن کے لئے اسلام کا نعرہ لگایا تھا۔ یہ نعرہ محض ایک سیاسی حربہ تھا یا فی الواقعہ مبنی براخلاص مقصد تھا؟ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد پاکستانی عوام اور علماے کرام نے حکمرانوں پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ اسلام کو نافذ کریں ۔ حکمرانوں کا حال یہ تھا کہ وہ مغربی افکار و نظریات کا دودھ پی پی کر پلے