کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 196
میں داخل ہوتے ہی، وہ مسلک ِانکار سنت کے پشتیبان بن گئے اور سنت ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق طرح طرح کے شکوک و شبہات پھیلانے میں وہ گولڈزیہر،شاخت اور دیگر مستشرقین پر بھی بازی لے گئے۔ مخالفت ِحدیث اور اثارۂ شکوک وشبہات، پاکستان میں طلوعِ اسلام اور پرویز صاحب کا مستقل شیوہ بن گیا۔ مفہومِ حدیث، متن حدیث، تدوین ِحدیث، الغرض، ہر پہلو سے اسے نشانہ بنایا جانے لگا، جملہ علماے اُمت اور پرویز صاحب کے درمیان بنیادی اختلاف دراصل یہی حجیت ِحدیث اور سندیت ِسنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا مسئلہ تھا۔ جس کے بطن سے ایک اور بڑا اختلاف یہ پیدا ہوا کہ قرآن کی تفسیر (سنت ِرسول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے) کس چیز سے کی جائے؟ اپنی خواہشات ِنفس سے؟ تہذیب ِمغرب کے افکار و اقدار سے؟ کتب ِلغات کی مدد سے؟ یا عربوں کے ادب ِجاہلی کی روشنی میں ؟ اگرچہ یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ قرآن کی تفسیر قرآن ہی سے کی جائے گی، لیکن اس کی اصل حقیقت بس یہی ہے کہ ذلک قولھم بأفواھھم! ’دو اسلام‘ انکارِ حدیث اور حجیت ِسنت کی بنا پر، پرویز صاحب اور علماے کرام کے مابین، نظامِ حیات کے تصورات میں انتہائی بعد اور مغایرت پیدا ہوئی۔ پرویز صاحب نے قرآن کے نام پر جو نظامِ حیات پیش کیا، اس کا معاشی نقشہ ہوبہو اور من و عن اشتراکیت سے ماخوذ ہے اور جو نظامِ معاشرت قرآن میں سے کشید کیا، اس کے جملہ اجزا مغربی معاشرت میں پہلے ہی سے موجود ہیں ، مثلاً مخلوط سوسائٹی، مخلوط تعلیم، ترکِ حجاب و نقاب، مرد وزَن کی مطلق اور کامل مساوات، خواتین کو درونِ خانہ فرائض کی بجائے بیرونِ خانہ مردانہ مشاغل میں منہمک کرنا، تعددِ ازواج کو معیوب قرار دینا، عورتوں کو خانگی مستقر سے اُکھاڑ کر ، اُنہیں مردانہ کارگاہوں میں لاکھڑا کرنا، خانگی زندگی میں اس کے فطری وظائف سے منحرف کرکے قاضی و جج بلکہ سربراہانِ مملکت تک کے مناصب پر براجمان کرنا وغیرہ۔ یہ سب وہ اجزاے معاشرت ہیں جنہیں اگرچہ پرویز صاحب نے قرآن مجید سے کشید کرڈالنے میں بڑی زحمت اُٹھائی ہے، لیکن تہذیب ِمغرب کے علمبردار بغیر کسی قرآن کے اُنہیں پہلے ہی اپنائے ہوئے ہیں ۔ دراصل یہی پرویز صاحب کی مغرب کے مقابلہ میں انتہائی ذہنی غلامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔