کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 195
فطرت، اسلام بطورِ دین و مذہب وغیرہ ، جملہ اُمور میں پرویز صاحب نے وہ موقف اختیار کیا جو متحدہ ہندوستان میں بیان کردہ اُن کے موقف کے بالکل متضاد اور برعکس تھا۔ لیکن ان کا سب سے بڑا اختلاف بلکہ تضاد و تناقض اس اسلام کے بارے میں ظاہر ہوا جس کی خاطر لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔ پاکستان میں ابتدائی دورِ طلوع اسلام پاکستان بنتے ہی پرویز صاحب نے اس اسلام کے بارے میں جس کے نفاذ کے لئے پاکستان حاصل کیا گیا تھا، پراگندہ خیالی اور ژولیدہ فکری پیدا کرنے کی ٹھان لی۔ متحدہ ہندوستان میں تو وہ قرآن و سنت کا نام لیا کرتے تھے، لیکن پاکستان میں آکر، اب اُنہوں نے کتاب بلاپیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن بلا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نرالا مسلک اپنایا۔ قرآن و حدیث یا کتاب و سنت کی بجائے صرف قرآن یا کتاب اللہ ہی کو ماخذ ِاسلام قرار دیا۔ اس سے قبل متحدہ ہندوستان میں جب وہ قرآن کا نام لیا کرتے تھے تو ان کا تصورِ قرآن، سنت سے منقطع نہ تھا۔ لیکن اب تنہا قرآن، بغیر سنت ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے، ان کا تکیہ کلام بن چکا تھا۔ چنانچہ طلوعِ اسلام نے ان تمام اُمور میں جن میں وہ مصلحت و منافقت کے تحت، اُمت ِمسلمہ کے افکار و نظریات کی ہم نوائی کیا کرتا تھا، اب قطعی متضاد اور مخالف روش اختیار کرلی، اور تنہا قرآن کی آڑ میں ایک بالکل نیا نظامِ معاشرت اور نظامِ مملکت وضع کرنے پر تل گیا۔ اس نئے ضابطہ حیات اور لائحۂ عمل کی بنیاد چونکہ قرآن وسنت کی بجائے، صرف قرآن قرار دی گئی تھی (اور وہ بھی محض نام کی حد تک، ورنہ اصلاً تو بنیاد، تہذیب ِمغرب ہی تھی) اس لئے اس کا ہر جزو اُس اسلام کے خلاف تھا جو قرآن و سنت پر مبنی تھا۔ اس طرح علماے کرام اور پرویز صاحب کے درمیان سب سے بڑا اختلاف خود تصورِ اسلام ہی میں واقع ہوگیا، جس کا اصلی اور بنیادی سبب سنت ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حجیت و سندیت کے بارے میں فریقین کا باہمی اختلاف تھا۔ علماے سلف و خلف تو ہمیشہ ہی سے قرآن کے بعد (بلکہ قرآن کے ساتھ) حجیت ِسنت کے قائل رہے ہیں ، لیکن پرویز صاحب (یا طلوعِ اسلام) قیامِ پاکستان سے قبل اگرچہ قرآن و سنت کو سرچشمہ اسلام مانتے ہوئے مسائل ِحیات کے حل کے قائل تھے، لیکن پاکستان کی حدود