کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 194
میں ایک ایسا ’عبوری دور‘ بھی گزرا ہے، جو طالب علمانہ انداز میں حدیث و سنت کے متعلق، شکوک و شبہات کے اظہار کا دور تھا اور مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ ’ترجمان القرآن‘ کے ذریعہ ایسے جملہ اوہام و شبہات کا کافی و شافی اور اطمینان بخش ازالہ کرچکے تھے، جیسا کہ مندرجہ ذیل اقتباس سے ظاہر ہے :
’’سب سے پہلے مسٹر پرویز نے بعض احادیث کے بارے میں اپنے شکوک و شبہات پیش کئے۔ ماہنامہ ترجمان القرآن میں ان شبہات کا پوری طرح اِزالہ کردیا گیا۔ لیکن پرویز صاحب کے یہ شبہات ایک جویاے حق اور مخلص قلب کی کھٹک نہ تھی جو افہام و تفہیم کے بعد دور ہوجاتی۔ ان کے یہ شکوک ایک برخود غلط قلب کے شکوک تھے جو رفتہ رفتہ شاخ در شاخ اور پختہ ہوتے رہے، یہاں تک کہ ان کو سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عناد پیدا ہوگیا۔‘‘[1]
’طلوعِ اسلام‘ اُفق ِ پاکستان پر
قیام پاکستان سے پہلے اور بعد کے طلوعِ اسلام میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ متحدہ ہندوستان میں یہ مجلہ اور پرویز صاحب اپنے ضمیر کے خلاف لڑتے ہوئے اُمت ِمسلمہ کے جن افکار و نظریات کی حمایت بلکہ مدافعت کیا کرتے تھے، اب وہی نظریات مصلحت کی دیمک کا شکار ہوگئے۔ چنانچہ اب وہ ملت ِاسلامیہ میں مقبول ہر اُصول اور مسئلے کی تردید پر اُتر آئے اور اپنے قلب و ذہن میں مکتوم و مستور افکار و تصورات ایک ایک کرکے، تدریج کے ساتھ اعلانیہ بیان کرنے لگے، اور ایسا کرتے ہوئے، پرویز صاحب کے لب و لہجہ میں بھی تبدیلی واقع ہوتی چلی گئی۔ طلوعِ اسلام کے، تب کے اور اب کے نظریات میں واضح فرق و تفاوت، بلکہ تغیر وتبدل،بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر تضاد وتناقض کی واضح مثالوں میں سے، چند ایک کا تذکرہ میری حالیہ کتاب ’’جناب غلام احمد پرویز ؛اپنے الفاظ کے آئینہ میں ‘‘میں تفصیلاً پیش کیا گیاہے۔چنانچہ حجابِ نسواں ، گانے اور گویے کی شرعی حیثیت، مصوری اور تمثال سازی میں اسلامی موقف، ملکیت ِزمین کی بابت شرعی حکم، ذاتی و شخصی ملکیت درنگاہ ِ اسلام، ضبط ِتولید میں اسلام کانقطہ نظر، خلیفۃ اللہ اور خلافت ِالٰہیہ از روے قرآن، وقت ِ موت کا تعین و تقرر، انسانی