کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 193
’نگار‘ میں شائع ہونے والی تحریروں کے خلاف خود مقالات و مضامین لکھا کرتے تھے، جو مختلف مجلات میں اشاعت پذیر ہوتے تھے، حالانکہ اُس وقت بھی وہ ذہناً سنت ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منحرف اور حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تھے لیکن بہرحال مسلمانوں میں اپنی مقبولیت پیدا کرنے کے لئے اور ان کی نگاہوں میں حامی ٔ حدیث اور معتقد ِسنت قرار پانے کے لئے مجبور تھے کہ منکرین حدیث کی تردید پر کمر بستہ رہیں ۔ اُن کا یہ رویہ طلوعِ اسلام کے اجرا تک ہی نہیں ، بلکہ خود طلوعِ اسلام میں بھی ایک مدت تک برقرار رہا ہے، اور مسلک ِ انکارِ حدیث کا دم بھرنے سے ایک عرصہ قبل تک، وہ معتقد ِ سنت اور حامی ٔ حدیث بن کر اسی طرح مسلمانوں میں اپنی مقبولیت میں اضافہ کرتے رہے جس طرح مرزا غلام احمد انکارِ ختمِ نبوت کا عقیدہ اپنانے سے قبل ختم نبوت کے عقیدہ کو پیش کرتے ہوئے مقبولِ عام بنے رہے ہیں ۔
مندرجہ بالا اقتباساتِ سبعہ سے، جو مشتے نمونہ از خروارے کی حیثیت رکھتے ہیں ، یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سنت کے متعلق پرویز صاحب کے دل میں خواہ کچھ بھی تھا مگر ان کا قلم اُس وقت بھی قرآن و سنت ہی کا قائل ،حامی اور مؤید تھا۔ پھر جوں جوں طلوعِ اسلام کا حلقۂ قارئین بڑھتا چلا گیا اور جوں جوں وہ قومیت پرست طبقہ کی مخالفت کے ساتھ ساتھ اس طبقہ کی پُرزور حمایت کرتے چلے گئے، جو مسلم نیشنلزم کا علمبردار تھا اور یوں ان کی ہردل عزیزی کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور پھر پرویز صاحب قرآن کے ساتھ سنت کا بالالتزام نام لیتے لیتے ’پاپولر‘ بنتے گئے تو اس کے بعد آہستہ آہستہ اُنہوں نے اپنا نقاب اُلٹنا شروع کیا اور پھر وہ وقت بھی آگیا جب وہ کھل کر مسلک ِانکارِ حدیث کا پرچار کرنے لگے، بالکل اسی طرح جس طرح ان کے پیشرو ہم نام ایک عرصہ تک اپنی خدمت ِاسلام کے ذریعہ اہل اسلام کے قلوب میں ، اپنے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے کے لئے ختم ِنبوت کے عقیدے کا راگ الاپتے رہے اور پھر یکایک اس مبنی برحق عقیدہ کو پس پشت ڈال کر خود دعواے نبوت پر اُتر آئے، مگر اس فرق کے ساتھ کہ غلام احمد قادیانی کے معاملہ میں ، عقیدۂ ختم ِنبوت کے اقرار اور انکار کے درمیان کوئی ایسا ’عبوری دور‘ نہیں ہے جس میں اُنہوں نے کسی لمبے چوڑے تدریجی عمل کو اختیار کرتے ہوئے ایک عقیدہ کی جگہ دوسرے عقیدہ کو اپنایا ہو، مگر پرویز صاحب نے ایسا کرنے میں تدریج کو اختیار کیا، جس