کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 192
منافقانہ اظہار ِ حق
یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ طلوعِ اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں ، اگرچہ قرآن کے ساتھ، سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اُسوۂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا جارہا تھا۔ مگر یہ اظہار ِ حق مبنی بر اخلاص ہونے کی بجائے منافقت پر مبنی تھا،کیونکہ ۱۹۳۸ء سے قبل (لیکن ۱۹۲۸ء کے بعد) بھی وہ قلبی اور ذہنی طور پر، سنت ِنبویہ سے اپنا تعلق کاٹ چکے تھے، اور تنہا کتاب اللہ ہی کی حجیت اور قرآن ہی کی سندیت کے قائل ہوچکے تھے، لیکن مسلمانوں کے معاشرہ میں ہردل عزیزی (Popularity) پالینے کے لئے وہ مجبور تھے کہ قرآن کے ساتھ سنت کا بھی نام لیتے رہیں ٭ چنانچہ باوجودیکہ اُس دور میں وہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا اعتقادی رشتہ منقطع کرچکے تھے، لیکن وہ اپنے قلم اور زبان سے مصلحتاً اُن ہی نظریات و اعتقادات کا اظہار کرنے پر مجبور تھے جو ملت ِ اسلامیہ میں مقبول و مسلم تھے، حتیٰ کہ ۱۹۳۵ء ہی کا یہ واقعہ ریکارڈ پر موجود ہے کہ اعظم گڑھ (بھارت) سے سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی زیرسرپرستی شائع ہونے والے مجلہ ’معارف‘ کے مارچ اور اپریل کے شماروں میں پرویز صاحب نے منکرین حدیث کی تردید وابطال میں حدیث ِنبوی کی دینی حیثیت کا پُرزور اثبات کیا تھا۔ یہ بالکل وہی تکنیک تھی جو دعواے نبوت سے قبل، مرزا غلام احمد قادیانی نے اختیار کی تھی۔ بقول طلوعِ اسلام:
’’مرزا غلام احمد ایک مناظر کی حیثیت سے قوم کے سامنے آئے اور بہت مقبول ہوگئے۔ انہی موضوعات پر اُنہوں نے اپنی کتاب ’براہین احمدیہ‘ شائع کی، جسے مسلمانوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اچھے اچھے پڑھے لکھے لوگوں نے بھی اس کی تعریف کی۔‘‘[1]
بالکل اسی طرح جناب غلام احمد پرویز بھی، منکرین ِ حدیث کے خلاف، حامی ٔ حدیث اور مدافع ِسنت کی حیثیت سے نمودار ہوئے۔اُن دِنوں ماہنامہ ’نگار‘ اور اس کے مقالہ نگار حضرات، وہی کچھ کہہ رہے تھے، جو بعد میں خود پرویز صاحب کا تکیہ کلام بنا رہا۔ لیکن اُس دور میں وہ