کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 181
قربانی میں دو مسلمانوں کی رقم کے اعتبارسے شرکت
٭ سوال:کیا دوبھائی یا دو دوست زید و بکر رقم ملا کر جانور قربان کرسکتے ہیں ؟ مثلاً جانور ۲۰ہزار کا ہے، دونوں دس دس ہزار روپے ڈالیں یا رقم کی تقسیم لازماً حصوں کی صورت میں ہوگی۔ زید چار حصوں کے حساب سے پیسے ڈالے اور بکر تین حصوں کے حساب سے۔
ہمارے امام صاحب نے یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ دو اشخاص صرف اورصرف حصوں کے اعتبار سے پیسوں کی تقسیم عمل میں لاسکتے ہیں جبکہ رقم کے دو حصوں کو اُنہوں نے مطلقاً غلط قرار دیا ہے اور اس کی کوئی دلیل بھی بیان نہیں کی، مجرد یہ کہنا کہ سات کا عدد آدھا نہیں ہوسکتا میرے خیال میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
جواب:ظاہر یہ ہے کہ دونوں ساتھی آدھے آدھے پیسے ملا کر قربانی کرسکتے ہیں ۔ حصوں کا اعتبار وہاں ہوگا جہاں عملاً شکل موجود ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ راجح مسلک کے مطابق قربانی واجب نہیں تو حصوں کا اعتبار کرنا کیسے ضروری ہوگیا۔ پھر اس طرح جب ایک جانور میں گھر کے سب افراد بلا امتیازِ حصص شریک ہوسکتے ہیں ، جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے تو اس صورت کا بھی ان پر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔
وراثت کا ایک مسئلہ
٭ سوال:روشن دین نامی شخص وفات پاگیا۔ اس کے ورثا میں بیوی، دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں ، ترکہ کس طرح تقسیم ہوگا ۔ یاد رہے کہ میت نے اپنی زندگی میں ایک بیٹے کو مکان عطا کیا تھا، یہ وراثت میں شمار ہوگا یا نہیں ؟
جواب: اس صورت میں بیوہ کے لئے آٹھواں حصہ ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے:﴿فَإنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَا أَوْ دَیْنٍ﴾
’’اور اگر اولاد ہو تو ان کا آٹھواں حصہ ہے (یہ حصے) تمہاری وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو تم نے کی ہو اور (ادائے) قرض کے بعد تقسیم کئے جائیں گے۔‘‘
اور باقی سات حصے اولاد میں تقسیم ہوں گے۔ ہر لڑکے کے لئے دوہرا حصہ اور ہر لڑکی کو اکہرہ حصہ ملے گا۔ قرآن میں ہے: ﴿یُوْصِیْکُمُ ﷲُ فِيْ أَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ﴾ ’’اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو