کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 180
حدیث) کے ہمراہ اگلے روز بروز جمعہ مؤرخہ ۴/نومبر کو عیدمنائی۔اس سلسلہ میں چند سوالات کے جوابات درکار ہیں : 1. جمعرات مؤرخہ ۳/نومبر کو عیدالفطر منانا مقامی کمیٹیوں کے اعلان کے مطابق درست تھا؟ 2. بروز جمعہ مورخہ ۴/نومبر کو رؤیت ِہلال کمیٹی کے اعلان کے مطابق عیدالفطر درست تھی؟ 3. اگر جمعرات کے روز عید غلط تھی تو اسی دن کے روزے کی قضا واجب ہوگی؟ جواب: بالا صورت میں رؤیت ِہلال کے سلسلہ میں حکومت کی قائم کردہ کمیٹی کے اعلان پر اعتماد کرنا چاہئے کیونکہ ان کے ہاں ذرائع ِرؤیت بآسانی میسر ہیں جو دیگر لوگوں کی استطاعت میں نہیں ۔ جنہوں نے جمعرات کے روز عید کی، اُنہیں آئندہ احتیاط کرنی چاہئے،کیونکہ اگر ایک یا زیادہ مسلمان خود چاند دیکھ بھی لیں تو وہ اکیلے عید نہیں کر سکتے صرف خفیہ طورپر روزہ چھوڑ سکتے ہیں ،کیونکہ عید کی عبادت مسلمانوں کی اجتماعی شان وشوکت کا اظہار ہے، لہٰذا سب کو ایک ہی دن عید کرنی چاہیے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’عید کا دن وہ ہے جس دن تمام مسلمان عید کریں ۔‘‘ لیکن اگر کچھ لوگوں نے کسی کی اطلاع پر روزہ چھوڑ دیا اور عید کر لی تو ان کا یہ عمل خلافِ سنت ہوگا اور چھوڑے ہوئے روزے کی قضا ضروری ہو گی۔ تاہم قضا واجب نہیں کیونکہ اجتہادی تساہل ہے۔ قربانی کرنے والے کے لئے صاحب ِنصاب ہونا؟ ٭ سوال: کیا قربانی کرنے والے کے لئے صاحب ِنصاب ہونا شرط ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام عمر صاحب ِنصاب نہیں رہے۔ کیا احناف کے پاس اس کی کوئی واضح دلیل ہے؟ جواب:حنفیہ کے نزدیک قربانی کرنے والے کے لئے مقیم اور صاحب ِنصاب ہونا ضروری ہے جبکہ نصاب پر سال گزرنا شرط نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ نصوصِ شریعت میں ان قیود کی کوئی دلیل نہیں ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے : باب الأضحیۃ للمسافر والنسائ’’مسافر اور عورتوں کے لئے قربانی مشروع ہے۔‘‘ اس باب سے ان کا مقصد شرعی نص کے ذریعے مخالفین کی تردید کرنا ہے، چنانچہ زیر باب حدیث میں یہی کچھ بیان ہوا ہے ۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے افعال و اعمال سے قطعاً یہ بات ثابت نہیں ہوسکی کہ اُنہوں نے قربانی میں نصاب کا اعتبار کیا ہو بلکہ بیشتر دلائل اس کے برعکس ہیں ۔