کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 179
اکتفا کرنا اولیٰ اور اوثق ہے،نیزمسنون عمل بہتر ہے ایک کثیر مگر غیر ثابت شدہ عمل سے۔ ساتھیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نوافل کی کوئی تعداد مقرر نہیں اوریہ کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے چالیس رکعات تک ثابت ہیں ۔ میرا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی انفرادی طور پر مزید ادا کرنا چاہے تو بات اور ہے مگر جہاں تک باجماعت قیام اللیل کی بات ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین رحمۃ اللہ علیہ (جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم )سے زائد ثابت نہیں ہے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں مسئلہ کی وضاحت فرما دیں نیز ۴۰ رکعات تک والی روایات کی اسنادی حیثیت بھی واضح فرما دیں ۔ جواب:زیادہ محتاط مسلک یہ ہے کہ صرف ثابت شدہ گیارہ رکعات پر اکتفاکیا جائے اور تعداد میں اضافہ کے بجائے ان کو لمبے قیام کی صورت میں ادا کیا جائے جس طرح کہ احادیث سے ثابت ہے۔البتہ وتر کے بعد بسا اوقات انفرادی نوافل کا جواز ہے، جس طرح کہ صحیح مسلم وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔ عام حالات میں باجماعت نوافل کو سنت ِمسلوکہ بنانے سے احتراز کرنا چاہئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے زیادہ تعداد کا اثبات محل نظر ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب صلاۃ التراویح از علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ عید الفطر اور حکومتی اعلان ٭ سوال:ماہنامہ’محدث‘ لاہور کا مستقل اور دیرینہ قاری ہوں ۔ ماہنامہ محدث میں جو فتاویٰ شائع ہوتے رہتے ہیں ، ان پر خود بھی یقین رکھتا ہوں اور میرے ساتھ دوسرے مدرّسین ساتھی اور گاؤں کے دیگر لوگ بھی ماہنامہ محدث کے فتاویٰ کو کافی و شافی سمجھتے ہیں __ اِمسال عیدالفطر کے بارے میں شدید اختلافات کا سامنا کرنا پڑا، اس لئے کہ یہی عید ہمارے اکثر اہل حدیث بزرگ جو کہ صوبہ سرحد میں مانے ہوئے شیخ القرآن والحدیث ہیں ، نے بھی مقامی (پشاور) کمیٹیوں کی شہادتوں پر عیدالفطر بروز جمعرات مؤرخہ۳/نومبر ۰۵ء کو منائی جبکہ ہم نے اگلے روز بروز جمعہ بتاریخ۴/ نومبر کو عیدمنائی، حالانکہ ہمارے ہاں وادی پشاور میں بدھ کی شام مؤرخہ۲/نومبر کو آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے مگر جمعرات کی رات ۱۱بجے عید کا اعلان کیا گیا۔ اس کے برعکس جمعرات کی شام آسمان بالکل صاف تھا۔ کوشش کے باوجود (دو دن کا چاند) گاؤں والے اور نزدیکی علاقے کے لوگوں نے نہ دیکھا، جمعہ کی شام سات بجے ریڈیو پر اعلان کیا گیا کہ کراچی میں چاند نظر آگیا ہے اور یوں بندہ نے کچھ دیگر ساتھیوں (حنفی، اہل