کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 178
سے مانع نہیں ۔
بہن بھائی کا دوسرے بھائی بہن سے بلا شرط نکاح
٭ سوال: ہم اپنی بیٹی کی شادی اپنی بہن کے بیٹے سے کرنا چاہتے ہیں اور ان کی بیٹی کی شادی اپنے بیٹے کے ساتھ۔ اس سلسلے میں ہماری یا دوسرے فریق کی کوئی شرط نہیں اور یہ محض اتفاق ہے کہ دونوں لڑکیاں اور لڑکے خالہ زاد ہیں اور یہ رشتے طے ہوگئے ہیں ۔ کیا یہ و ٹہ سٹہ تو نہیں ہے، اس کے علاوہ ہمیں حق مہر کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
جواب:بلا شرط نکاح کی مذکورہ صورت وٹہ سٹہ نہیں ۔
ٍولی کی رضامندی دینی سبب سے مشروط ہے !
٭ سوال: اگر لڑکی کے والد صاحب رضا مند نہ ہوں یا نیم رضا مند ہوں تو کیا لڑکی کا نکاح ہوسکتا ہے یا پھر کوئی اور شخص لڑکی کا ولی بن سکتا ہے یا نہیں ؟ (محمد زکریا، اسلام آباد)
جواب: لڑکی کے نکاح پر والد کی عدم رضامندی کا سبب اگر دینی ہے تو نکاح نہیں ہوگا، مثلاً لڑکا بے دین ہے اور اگر دنیاوی سبب ہو مثلاً باپ بے دین لڑکے سے شادی کرنا چاہتا ہو یا بوجہ اتباعِ خواہش یا کسی دنیاوی مفاد کی خاطریا بلا وجہ شادی میں رکاوٹ بن رہا ہو تو باپ کی جگہ اس کے قریبیوں سے بترتیب ِولایت ولی بنا کر کسی صالح آدمی سے نکاح منعقد ہوسکتا ہے اور اگر باپ کی طرف سے کوئی قریبی رشتہ دار نہ ہو تو کسی بھی صالح شخص کو ولی قرار دے کر نکاح پڑھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ولی کے لئے خیرخواہ ہونا ضروری ہے جو زیر بحث مقام میں مفقود ہے۔
آٹھ تراویح کے بعد نفل نماز پڑھنا
٭ سوال:رمضان المبارک کی طاق رات(۲۳ویں شب) کو شب بیداری اور تلاش لیلۃ القدر کے اشتیاق میں مسجد میں معتکفین اور بعض اہل محلہ نے آٹھ رکعات نمازِ تراویح ادا کرنے کے بعد کچھ دیر توقف کیا اور پھر دوبارہ قیام اللیل کی نیت سے باجماعت نوافل (۲۲ رکعات) اور تین وتر ادا کئے۔ اگلے روزانہوں نے سے بھی آئندہ طاق رات ساتھ رہنے پر اصرار کیا۔ تومیں نے اُنہیں کہا کہ قیام اللیل، تہجد اور تراویح ایک ہی عبادت کے مختلف نام ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاحیات مابین نمازِ عشا و فجر گیارہ سے زائد رکعات ادا نہیں فرمائیں لہٰذا اسی پر