کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 172
’’شیخ محمد بن قاسم بن علی ہندی حیدر آبادی اپنی کتاب القول المستحسن في فخر الحسن کے ص ۴۹۶ پر لکھتے ہیں : (جعلی روایات میں ) سات قسم کے مصافحات کا ذکر ملتا ہے : 1. المصافحۃ العلویۃ الحسنیۃ: حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے مصافحہ کرنا 2. المصــافـحـــۃ الأنسیـــۃ: ابوہرمز کا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مصافحہ کرنا 3. المصافحــۃ الخــضریــۃ: حضرت خضر علیہ السلام سے مصافحہ کی نسبت 4. المصافحۃ المعمریۃ الحبشیۃ: حبشہ کے معمرین میں سے کسی کی طرف منسوب 5. المصافحۃ المعمریۃ المغربیۃ: اس مصافحہ کی نسبت معمر مغربی کی طرف ہے 6. المصـــافحــۃ الجــنــیــۃ : شمہورش جنی کی طرف منسوب مصافحہ یہ سب باطل اور بے وزن باتیں ہیں اور یہ درست نہیں کہ ان باتوں سے خوش ہوا جائے یا کوئی طالب علم ان کی تصدیق کرے۔ (المصنوع بتحقیق عبدالفتاح ابوغدہ: ص ۲۶۹،۲۷۰) آخری بات:روایات مسلسل بالمصافحہ پر مذکورہ بالا جرح کے بالمقابل ائمہ صوفیا ان روایات کو صحیح خیال کرتے ہیں اور اس طرح بعض متساہلین نے اپنی کتب میں ان روایات کو جگہ دی اور اُنہیں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان روایات پر محدثین کرام کی قرآن وسنت کے دلائل پر مبنی واضح نصوص کی بنیاد پر جرح کے برعکس صوفیا کے نزدیک ان کی صحت کا معیار دو چیزیں ہیں : 1. کشف کی وجہ سے ان روایات کی صحت کو پرکھا گیا ہے۔ 2. اور یہ کہ خضر علیہ السلام اور دوسرے معمرین (( أرأیتکم لیلتکم ۔۔۔ الخ)) کے عموم سے خاص ہیں ۔ (الإبریز لأحمد بن المبارک السلجماسي، ص۱۶۹) اوّل الذکر اُصول کا محدثین کے ہاں کوئی وزن نہیں کہ کشف کے ذریعے کسی روایت کی صحت پرکھی جائے۔اور اس اصول کو پیش کرنا دور کی کوڑی لانے کے مصداق ہے۔ جبکہ آخر الذکر دعویٰ میں خصوص کی کوئی دلیل نہیں جو انہیں (( أرأیتکم لیلتکم۔۔۔الخ)) کے عموم سے خارج کردے، یوں بھی حضرت خضر علیہ السلام کی وفات پر کئی دیگر قرآنی دلائل بھی شاہد ہیں ۔ لہٰذا بلا دلیل عام کو خاص کرنا بے اُصولی اور بے جا ضد ہے جو شریعت ِمطہرہ میں نا قابل قبول ہے۔