کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 171
’’اور اسی میں سے وہ احادیث جن میں خضر علیہ السلام اور ان کی زندگی (کے استمرار) کا ذکرہے، وہ سب کی سب باطل ہیں ۔ ان کی حیات سے متعلقہ (ایسی) ایک بھی حدیث مستند نہیں ۔‘‘ (الأسرار المرفوعۃ بتحقیق الصباغ، ص۴۴۲)
خلاصہ: مذکورہ بالا بحث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ
1. حضرت خضر علیہ السلام نبی تھے۔ 2. وہ فوت ہوچکے ہیں ۔ اور
3. ان کی حیات کی تمام روایات غیر مستند ہیں ۔
اور اب ہم روایت ِمصافحہ کی طرف لوٹتے ہیں کہ جب آپ علیہ السلام کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مفارقت ہوئی، اس کے بعد آپ علیہ السلام کے احوال کے متعلق قرآن و سنت خاموش ہے اور اسی طرح جو مرفوع روایات یا آثارِ صحابہ ملتے ہیں ، وہ پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتے بلکہ آپ علیہ السلام کی وفات پر قرآن و سنت کی نصوص اور علما محققین کی آرا موجود ہیں تو ان حالات میں اگر کوئی حضرت خضر علیہ السلام سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات یا خود ان سے روایت کا ذکر کرتا ہے تو ایسا دعویٰ مضحکہ خیز ہے۔
مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں روایت مسلسل بالمصافحہ کی صحت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ خضر علیہ السلام کی ملاقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو، اس کا کوئی ثبو ت نہیں اور یقینا خضر علیہ السلام سے مصافحہ کا مدعی غلطی پرہے یا تو وہ خود جھوٹ بول رہا ہے یا وہ کسی شیطان سے ملاقات کربیٹھا ہے۔
یہاں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کا حوالہ دینا برمحل ہوگا :
’’من أحال علی غائب لم ینصف منہ وما ألقی ھذا إلا شیطان‘‘
’’جو غائب (فوت شدہ) سے ملاقات کا حوالہ دیتا ہے، اس سے انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ (یقینا) یہ بات شیطان کی طرف سے القا ہوئی ہے۔ ‘‘ (فتاویٰ: ۴/۳۳۷)
لہٰذا یہ روایت بھی خانہ ساز اور صوفیا کی طرف سے مشہور کیا گیا محض ایک دعویٰہے جس کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خضر علیہ السلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
جملہ روایاتِ مصافحہ پر ایک تبصرہ
اب ہم مجموعی طور پر مختلف لوگوں کی طرف منسوب مصافحات پر حنفی عالم ابوغدہ عبدالفتاح الکوثری کا تبصرہ ذکر کرتے ہیں ۔ ابوغدہ، ملا علی قاری حنفی کی کتاب المصنوع کی تحقیق میں مصافحہ والی روایت کے تحت لکھتے ہیں :