کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 170
4. نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( ما علیٰ الأرض من نفس منفوسۃ الیوم یأتي علیہا مائۃ وہی حیۃ یومئذ)) (مسلم:۲۵۳۸) ’’ آپ سے سو سال کے بعد جو ذی نفس بھی زمین پر ہے، وہ زندہ نہیں رہے گا۔‘‘ بالفرض حضرت خضر علیہ السلام کا وجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مان بھی لیا جائے تو وہ اس روایت کے عموم میں شامل ٹھہرتے ہیں جو کہ ان کی موت ثابت کرتا ہے۔ علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ (( أرأیتکم لیلتکم۔۔۔ الخ)) اور اس معنی کی دوسری روایات بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : فھذہ الأحادیث الصحاح تقطع دابر دعوٰی حیاۃ الخضر (بحوالہ البدایہ و النھایہ:۱/۳۳۶) ’’یہ روایاتِ صحیحہ حیاتِ خضر علیہ السلام کے دعویٰ کی جڑکاٹ دیتی ہیں۔‘‘ ٭ اب ہم خضر علیہ السلام کی وفات اور ان کی حیات سے متعلقہ وارد شدہ روایات کی حیثیت پر علما و محدثین کے مزید اقوال بیان کرتے ہیں : 1. ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنی کتاب عجالۃ المنتظر في شرح حالۃ الخضر میں حیاتِ خضر علیہ السلام سے متعلقہ روایات کے بارے میں ثابت کیا ہے کہ وہ تمام مرفوع روایات موضوع ہیں اور اُنہوں نے صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب آثار کا ضعف بھی واضح کیا ہے۔ ( ایضاً: ۱/۳۳۴) 2. ابوالخطاب کہتے ہیں : جمیع ما ورد في حیاتہ لا یصح منہ شیئ باتفاق أھل النقل’’اہل نقل اس پر متفق ہیں کہ حیاتِ خضر علیہ السلام کی جمیع روایات میں سے کوئی بھی مستند نہیں ۔‘‘ (الإصابۃ:۲/۲۵۳) 3. شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صحیح بات وہی ہے جس پر محققین قائم ہیں کہ خضر علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں ۔ اگر وہ موجود ہوتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے اور ان پر زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں فرض تھا کہ وہ ایمان لاتے اور ان کے ساتھ جہاد کرتے جس طرح کہ سب پر جہاد فرض تھا۔ (فتاویٰ شیخ الإسلام : ۲۷/۱۰۰) 4. ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ومنھا الأحادیث التي یذکر فیھا الخضر وحیاتہ، کلھا کذب ولا یصح في حیاتہ حدیث واحد