کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 169
’’ ہم نے آپ سے قبل کسی بھی انسان کو دائمی زندگی نہیں دی اگر تم فوت ہو گئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیں گے۔‘‘(الانبیائ:۳۴) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور بعد کسی بشر کو زندگی کا استمرار نہیں دیا۔ لہٰذا خضر علیہ السلام کے متعلق کس طرح یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ابھی تک زندہ ہیں ؟ 2. سورۂ آلِ عمران کی آیت ۸۱ میں تمام انبیاے کرام علیہم السلام کا یہ وعدہ ذکر کیا گیا ہے: ﴿وَإذْ أَخَذَ اللّٰه ُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّیْنَ لَمَآ اٰ تَیْتُکُمْ مِنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہِ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ قَالَ ئَ أَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ إِصْرِیْ قَالُوْا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْہَدُوْا وَأَنَا مَعَکُمْ مِنَ الشّٰہِدِیْنَ﴾ ’’ یاد کرو ! اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ آج میں نے تمہیں کتاب اور حکمت ودانش سے نوازا ہے کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے تو تم کو اس پر ایمان لانا ہو گا اور اس کی مدد کرنی ہو گی ۔یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں ، ہم اقرار کرتے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا: اچھا توگواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں ، اس کے بعد جو اپنے عہد سے پھر جائے وہی فاسق ہے۔‘‘ حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں یہ بات ثابت ہے کہ وہ نبی علیہ السلام تھے جب کہ مذکورہ بالا آیت میں لیے گئے وعدہ میں وہ بھی شامل ہیں اور ان پر بھی یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ اگر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرور بالضرور تائید کرتے جس کی ایک بھی نظیر روایات میں موجود نہیں ۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خضر علیہ السلام وفات پا چکے ہیں ۔ 3. نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لو کان أخي موسی حیًا ما وسِعہ إلا اتباعي))٭ ’’اگر میرا بھائی موسیٰ زندہ ہوتا تو اسے بھی میری اتباع کے سوا چارہ نہ تھا۔‘‘ (مسند احمد :۳/۳۸۷) اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر خضر علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں زندہ ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے جس کا تذکرہ کہیں موجود نہیں ۔ ________________ ٭ إرواء الغلیل:۱۵۸۹ میں علامہ البانیؒ اور مسند احمد کی تحقیق میں حمزہ احمد الزبیرؒ نے اسے حسن کہا ہے۔