کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 168
لئے کشف وکرامات اور ایسی روایات جن کا غیر مستند ہونا ظاہر و باہر ہے، کا سہارا لیا گیا۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے خضر علیہ السلام کی زندگی کے متعلق ایک مستقل رسالہ لکھا ہے جس میں اُنہوں نے حضرت خضر علیہ السلام کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اور بعد کے زمانہ سے متعلقہ تمام روایات کو ذکر کر کے ہر روایت پر ائمہ جرح وتعدیل کی جرح بھی نقل کردی ہے۔ (دیکھئے: الزھر النضر في حال الخضر بتحقیق صلاح الدین مقبول احمد: ص۸۶ تا ۱۶۲) اسی طرح حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے خضر علیہ السلام کی وفات پر محدثین کے بہت سے اقوال نقل کئے ہیں جو بالاختصاردرج ذیل ہیں : ابوحیان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ جمہور کے مسلک کے مطابق وہ فوت ہوچکے ہیں ۔ ابن ابی الفضل المرسی سے بھی یہی نقل ہے کہ اگر خضر علیہ السلام زندہ ہوتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ضرور آتے اور ایمان واتباع سے بہرور ہوتے۔ تفسیر اصبہانی میں حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں ۔ اسی طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ خضر علیہ السلام اور الیاس علیہ السلام زندہ ہیں ؟ تو اُنہوں نے فرمایا: یہ کیسے ہوسکتاہے؟جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:(( أرأیتکم لیلتکم۔۔۔الخ)) (الإصابۃ:۲/۲۵۶) اور خود ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’ قلت: وہو حیث مسلّم یدل أن الخضر المشہور ماتَ ‘‘ (الزہر النضر :۱۶۱،الإصابۃ:۲/۲۸۱) ’’ میں کہتاہوں اس سے یہی بات مسلم ومشہور ہے کہ خضر فوت ہوچکے ہیں ۔ ‘‘ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا دعویٰ ہے کہ امام ابن تیمیہ، امام بخاری، ابن جوزی، قاضی ابویعلی حنبلی، علی موسیٰ الرضا، ابراہیم بن اسحق حربی، ابوالحسین بن مناوی رحمہم اللہ جیسے جلیل القدر محدثین ان کی موت کے قائل ہیں ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: المنارالمنیف: ص۷۵ تا۷۸ بتحقیق محمود مہدی استنبولی ٭ اسکے علاوہ درج ذیل نصوص سے بھی حضرت خضر علیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے : 1. اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ أَفَإنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخٰلِدُوْنَ﴾