کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 167
تجویز کرتا ہے، اسے اپنے اسلام کی تجدید کرنی چاہیے اور کلمہ شہادت پڑھے، کیونکہ وہ دین سے کلی طور پر خارج ہو چکا ہے چہ جائیکہ اس کا شمار اولیاء اللہ میں ہوبلکہ وہ شیطان کے ولیوں میں سے ہے۔ یہی مسئلہ زنادقہ اور اہل استقامت (اہل السنہ) کے درمیان فرق کرنے والا ہے۔‘‘
٭ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس عقیدہ کو زنادقہ کی طرف منسوب کیا ہے۔لکھتے ہیں :
’’ وکان بعض أکابر العلماء یقول: أول عقدۃ تحل من الزندقۃ اعتقاد کون الخضر نبیًا لأن الزنادقۃ یتذرعون بکونہ غیر نبي إلیٰ أن الولي أفضل عن النبي کما قال قائلہم:
مقام النبوۃ في برزخ فویق الرسول ودون الولي
’’بعض اکابر علمانے کہا ہے کہ خضر علیہ السلام کے نبی ہونے کا عقیدہ زندیقیت کی پہلی گرہ کھول دیتا ہے،کیونکہ زنادقہ ولی کی نبی پر فضیلت کے لیے خضر علیہ السلام کے غیر نبی ہونے کو آڑ بناتے ہیں جس طرح کہ ان لوگوں میں سے کسی نے کہا : برزخ میں نبوت کا مقام رسول سے کچھ اوپرا ور ولی سے نیچے ہے ۔‘‘ (الإصابۃ:۲/۲۴۸)
3. حضرت خضر علیہ السلام کا نبی ہونا: آپ علیہ السلام کے بارے میں جمہور علما اسی بات کے قائل ہیں کہ آپ نبی تھے۔ ثعلبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جمہور اقوال کے مطابق وہ نبی ہیں ۔(الزہر النضر: ص۶۶)
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے (تفسیر قرطبی:۱۱/۱۶) میں ،علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے (روح المعانی:۱۵/۳۲۰) میں اور ابوحیان نے(البحر المحیط :۶/۱۴۷) میں حضرت خضر علیہ السلام کے نبی ہونے کو جمہور کی طرف منسوب کیا ہے۔ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی دونوں طرح کے اقوال بیان کرکے راجح اسی کو قرار دیا ہے کہ خضر علیہ السلام نبی تھے، فرماتے ہیں : ’’قلت ذلک لأن غالب أخبارہ مع موسی ھي الدالۃ علی تصحیح قول من قال:إنہ کان نبیا‘‘ ’’میں کہتا ہوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والے ان کے اکثر واقعات یہ بتاتے ہیں کہ ان کو نبی قرار دینے والوں کی بات ہی صحیح ہے ۔ (الإصابۃ :۲/۲۴۹، المنار المنیف: ص۸۴ بتحقیق محمود مہدی استنبولی)
حضرت خضر علیہ السلام کی موت وحیات؟
اب حیاتِ خضر علیہ السلام کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ آیا وہ زندہ ہیں یا فوت ہوچکے ہیں ؟ اس میں بھی جماعت ِصوفیا پیش پیش رہی کہ حضرت خضر علیہ السلام کی حیات کو ثابت کیا جائے جس کے