کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 166
مگر جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ یہ عقیدہ عجمی تصوف کی پیداوار اور بعض صوفیا کی اثر پذیری کا نتیجہ ہے، اسی لئے چوتھی صدی ہجری سے پہلے ایسے غیر حقیقت پسندانہ نظریات کا وجود ناپید رہا۔ بعد میں کچھ مہربانوں نے متعدد ایسی روایات کو وجود بخشا جن سے مذکورہ بالا عقیدہ کی نقلی تائید مقصود تھی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ٭ ومن ھٰؤلاء من یفضل الأولیاء علی الأنبیاء وقد یجعلون الخضر من ھؤلاء وھذا خلاف ما أجمع علیہ مشایخ الطریق المقتدی بھم دع عنک سائر أئمۃ الدین وعلماء المسلمین (فتاویٰ: ۱۳/۲۶۷) ’’اور وہ لوگ جو اولیا کو انبیا پر فضیلت دیتے ہیں اور خضر علیہ السلام کوان اولیا میں شمار کرتے ہیں ، یہ دعویٰ ائمہ دین اور علماے مسلمین کی تو بات چھوڑ، ان مشائخ طریقت جن کی اقتدا کی جاتی ہے کے اجماع کے بھی خلاف ہے۔‘‘ ٭ اور دوسری جگہ فرماتے ہیں : وکل ہذہ المقالات من أعظم الجہالات والضلالات بل من أعظم ’’اور یہ تمام باتیں عظیم جہالتیں اور بڑی ضلالتیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں ۔‘‘(ایضاً:۱۱/۴۲۲) ٭ علامہ ابن ابی العز حنفی کہتے ہیں : ’’وأما من یتعلق بقصۃ موسی مع الخضر علیہما السلام في تجویز الاستغناء عن الوحي بالعلم اللدني الذي یدّعیہ بعض مَن عَدِم التوفیق فہو ملحد زندیق۔۔۔ فمن ادّعٰی أنہ مع محمد کالخَضِر مع موسٰی أو جوّز ذلک لأحد من الأمۃ فلیجدِّد إسلامہ ولیشہد شہادۃ الحق فإنہ مُفارق لدین الإسلام بالکلیۃ فضلا عن أن یکون من أولیاء اللہ وإنما ہو من أولیاء الشیطان وہٰذا الموضع مُفَرق بین زنادقۃ القوم وأہل الاستقامۃ‘‘ (شرح العقیدۃ الطحاویۃ:ص ۵۱۱) ’’اور جو شخص علم لدنی کے ساتھ علم وحی سے بے پرواہی کے جواز کا تعلق موسیٰ علیہ السلام اورخضر علیہ السلام کے قصہ سے جوڑتا ہے ،جس طرح کہ توفیق سے بے بہرہ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں پس وہ ملحد اور زندیق ہے۔جوشخص دعویٰ کرتا ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی طرح ہوں جس طرح خضر علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے یا وہ امت میں سے کسی کے لیے یہ شرف