کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 165
بھی محدثین کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث (( أرأیتکم لیلتکم…الخ))سے اخذ کردہ اصولی کسوٹی پر اس کا کھوٹا ہونا واضح ہے۔
4. حضرت خضر علیہ السلام
حضرت خضر علیہ السلام کے متعلق بہت سی موضوع و ضعیف روایات بیان کی جاتی ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کرنے والی روایت بھی ہے،جو روایت مسلسل بالمصافحۃ الخضریۃ کے نام سے مشہور ہے اور یہ روایت مناھل السلسلۃ ص۴۵ تا ۴۷ میں مختلف اسناد سے حضرت خضر علیہ السلام کے واسطے سے مروی ہے۔
اس روایت کی تحقیق سے متعلقہ چند باتیں قابل غور ہیں :
1. خضر علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں یا نہیں ؟
2. ان کی ملاقات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے یا نہیں ؟
3. ان کا شمار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟
اب ہم مندرجہ بالا نکات کا جائزہ لیں گے :
حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں تین اقوال ہیں : 1. فرشتہ 2. ولی 3. نبی
1. جہاں تک حضرت خضر علیہ السلام کے فرشتہ ہونے کا قول ہے اور یہ قول ماوردی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے اور یہ شاذ قول ہے اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا ردّ فرمایا ہے۔ (شرح مسلم:۱۵/۱۴۶، البدایہ ۱/۳۲۸)
2. حضرت خضر کا ولی ہونا: اب رہا یہ اختلاف کہ وہ نبی ہیں یا ولی؟ تو واضح ہے کہ یہ اختلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباًتین سو سال بعد اس وقت رونما ہوا جب عجمی تصوف کے علمبرداروں نے مسلمانوں میں اس بے ہودہ عقیدہ کو رواج دینا چاہا کہ معاذ اللہ ولی علم و فضل اور ادراک و معرفت میں نبی سے افضل ہوتا ہے اور وہ باطنی علوم و معارف کی وجہ سے علومِ ظاہری کے حامل جملہ انسانوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ الٰہی افکار کے نتیجہ میں قرآن مجید میں مذکور قصہ موسیٰ علیہ السلام و خضر علیہ السلام کے حوالے سے یہ بات مشہور کی گئی کہ حضرت خضر علیہ السلام چونکہ علم لدنی کے حامل اور حضرت موسیٰ علیہ السلام صرف علوم ظاہری سے آشنا تھے اس لئے وہ حضرت خضر علیہ السلام کی خدمت میں حاضری دیتے اور ان کے سامنے زانوے تلمذطے کرتے نظر آتے ہیں ۔