کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 164
پہلے اس کی عدالت معلوم ہوچکی ہے توبھی اسے قبول نہیں کیا جائے گا،کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ہے(( أرأیتکم لیلتکم ۔۔۔ الخ))‘‘ (فتح المغیث:۳/۱۰۵) لہٰذا ان نکات کی بنا پر قاضي شمہورش جني یا قاضي مہنیۃ کے قول یا روایت کا اسلامی شریعت میں کوئی اعتبار نہیں ۔ 3. ابو سعید الحبشی الصحابی المعمر یہ صاحب بھی شرفِ صحابیت کے دعویدارہیں ، جیسا کہ ان کی روایت گزر چکی ہے جسے روایت مسلسل بالمصافحہ بالحبشیہ کہا جاتا ہے،یہ روایت بھی دو وجہ سے قابل ردّ ہے۔ 1. ابو سعید حبشی مجہول شخص ہے۔ رواۃ ِ حدیث کے حالات کا علم رکھنے والوں نے اس کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ عبدالباقی انصاری نے اپنی مُسلسل میں اس روایت کی سند پر قاوقجی اور ابن طیب کے شکوک کا تذکرہ کیا ہے : قال القاوقجي:أبوسعید الحبشي لم یعرف في الصحابۃ ولعلہ وممن لم یشتھر وقال ابن الطیب في مسلسلاتہ: ھي أغرب المصافحات وأوھاھا وأکثرھا جھلا من مبتدء خبرھا إلی منتھاھا وقد أولع بھا الفرس ولا سیما الطائفۃ النقشبندیۃ ثم ساق سند المصافحۃ وقال: فھي مع الجھل برجالھا وعدم معرفۃ حفاظھا روائح الوضع فائحۃ من فواتح ألفاظھا۔ (المناھل السلسلۃ: ص۵۵) ’’قاوقجی کہتے ہیں کہ ابو سعید حبشی کا صحابہ میں سے ہونا نامعلوم ہے۔ شاید وہ غیر معروف صحابہ میں سے ہوں اور ابن طیب نے اپنی مسلسلات میں کہا کہ یہ روایت مصافحات کی روایات میں سے عجیب ترین اور ان روایات میں سے سب سے بے کار ہے۔ اس کی ابتدا سے انتہا تک اکثر رواۃ مجہول ہیں اور اس کی طرف زیادہ تر فارسی لوگ خصوصاً سلسلہ نقشبندیہ کے اصحاب لگاؤ رکھتے ہیں ۔ پھر اس نے مصافحہ والی سند آگے ذکر کی اور کہا کہ’’ پس یہ روایت اپنے رواۃ کی جہالت، حفاظ کی عدمِ معرفت اور ابتدائی الفاظ وغیرہ سب سے اس کی وضع کی بو آر ہی ہے۔‘‘ 2. بالفرض ابوسعید الحبشی کی جہالت دور ہو بھی جائے اور ثقاہت ثابت ہوجائے تب