کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 163
توقف في ذلک بعض الحفاظ بأن شرط الراوي العدالۃ والضبط وکذا مدعي الصحبۃ شرطہ العدالۃ والجن لا نعلم عدالتھم
’’جنوں کی روایت کے بارے میں بعض حفاظ نے راوی کی عدالت و ضبط کی شرط کی وجہ سے توقف اختیا رکیا ہے اور اسی طرح مدعی صحبت کے لئے بھی عدالت کی شرط ہے جبکہ جنات کی عدالت کے بارے میں ہم نہیں جان سکتے ہیں ۔‘‘ (الفتاویٰ الحدیثیۃ :ص۱۷)
لہٰذا روایت کے معاملہ میں جنات پر کسی قسم کا اعتماد نہیں کیا جاسکتا جبکہ شروع میں ہم ذکر کر آئے ہیں کہ مدعی صحبت کے لئے بھی ضروری ہے کہ اپنے دعویٰ میں سچا ہو جبکہ ایک جن اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ملاقات کا دعویدار ہے تو ہم اس کو جن ہونے کی وجہ سے سچا نہیں مان سکتے، کیونکہ اس کی توثیق کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ۔ جب کہ کسی انسان کی بھی کوئی مشاہداتی گواہی موجود نہیں کہ اس جن کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی ہے۔
الغرض جنات کے احوال کو درج کرنا انسانوں پر تکلیف ما لا یطاق کے ضمن میں آتا ہے، اسی لئے کتب اسماء الرجال میں جنات کے احوال کا اہتمام بھی نہیں کیا گیا۔اس بنا پر کسی روایت کی سند میں کسی ’جن‘ کے راوی ہونے سے اس راوی کے حالات سے جہالت لازم آتی ہے۔ اور واضح ہے کہ کسی ایک راوی کے حالات کا علم نہ ہونا اس حدیث کے ضعف کے لئے کافی ہے، جیسا کہ اس کے لئے فن حدیث میں مجہول کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور حدیث کی یہ نوعیت ضعیف احادیث کی اقسام میں شمار ہوتی ہے۔
2. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اس امر کو مستلزم کہ اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے صدورکے بعد کسی ذی نفس کی روے زمین پر ۱۰۰ سال سے زیادہ زندگی غیرثابت شدہ امر ہے۔ چنانچہ مدعی ٔ صحبت جن ہو یا انسان، وہ سب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث (( ما علیٰ الأرض من نفس منفوسۃ ۔۔۔الخ)) کے قول میں شامل ہیں ۔ لہٰذا محدثین کا مدعی ٔ صحبت کے متعلق یہ اُصول کہ اس کا ۱۱۰ھ سے پہلے تک ہونا ضروری ہے، اٹل ہے۔ بلکہ علامہ عراقی تو یہاں تک کہتے ہیں :
لو ادعاہ بعد مضي مائۃ سنۃ من حین وفاتہ صلی اللہ علیہ وسلم فإنہ لا یقبل وإن کانت قد ثبتت عدالتہ قبل ذلک في الحدیث الصحیح (( أرأیتکم لیلتکم۔۔۔ الخ))
’’اگر کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے سو سال کے بعد صحابیت کا دعویٰ کردے، اگرچہ اس سے