کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 162
ہی جن کے دو نام ہونا بھی خارج از امکان نہیں ۔ بہرحال یہ شخصیت بھی صحابی ہونے کی دعوے دار ہے۔ اور یہ بھی حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد روایت کرتاہے۔ اس کے صحابی ہونے میں حسب ِذیل اُمور مانع ہیں : 1. مسلمان جنات اگرچہ انسانوں کی طرح شریعت ِمحمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکلف ہیں کہ وہ اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کو تسلیم کریں اور شریعت ِمحمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہوں جس پر جزا وسزا اور تخاطب ِجن و انس اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی نصوص دلیل ہیں ۔ اسی طرح محدثین کے ہاں راجح مسلک کے مطابق ایک جن بھی صحابی ہوسکتا ہے جیسا کہ نصیبین کے جنات کے ایک گروہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ (الإصابۃ:۱/۱۵۸) اسی طرح جنوں کا انسانوں سے سماع کرنا اور جنوں کو سنانا بھی ثابت ہے جس کی دلیل ﴿وَإذْ صَرَفْنَا إِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْآنَ۔۔۔الخ﴾(الاحقاف:۲۹) ہے، لیکن کسی انسان کا جنوں سے روایت لینا بہرحال محل نظر ہے ،کیونکہ روایات کے متعلق اسناد کو پرکھنے کے لئے ائمہ جرح تعدیل نے ضوابط مقرر فرمائے ہیں اور اس کے لئے باقاعدہ اسماء ا لرجال کا فن وجود میں آیا ہے جس میں ہر راوی کے احوال درج ہیں اور اس کی ثقاہت وعدالت پر پوری بحث موجود ہے۔ جبکہ اس غیر مرئی قوم کے رجال کے احوال ضبط میں لانا محال ہے اور یہی وجہ ہے کہ ائمہ اسماء ا لرجال نے اس کی کوشش بھی نہیں کی، لہٰذا جنات کی عدمِ توثیق کی وجہ سے کسی جن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ جھوٹ کہہ رہا ہے یا سچ۔ جیسا کہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وأما روایۃ الإنس عنھم فالظاہر مَنعُھا لعدم حصول الثقۃ بِعَدَالتِھم ’’رہا انسان کا جنوں سے روایت کرنا تو اس کی ممانعت ان کی ثقاہت ِعدالت کے حاصل نہ ہونے کی وجہ سے واضح ہے۔‘‘ (الأشباہ والنظائر للسیوطي ص۲۵۸، الأشباہ والنظائر علی مذھب أبي حنیفۃ النعمان لابن نجیم، ص ۳۲۹) اسی طرح ابن حجر ہیتمی مکی نے بعض حفاظ کے حوالے سے لکھا ہے :