کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 161
پر (جان بوجھ کر )جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔‘‘ کی زد میں ہے۔
پھر میں نے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے معمر کے بارے میں فتاویٰ دیکھے، اُنہوں نے لکھا تھا کہ اس روایت کے بارے میں کوئی نص موجود نہیں اور معمر کی سندوں میں سے کوئی سند بھی اعتراض سے خالی نہیں حتیٰ کہ معمر خود بھی انہی میں شامل ہے پس جو کوئی بھی صحابیت کا دعویٰ کرے گا تو اس کی ثقاہت ِدعویٰ کا ثبوت مطلوب ہے جبکہ اس کا عقلاً ثابت ہونانبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان (آج کے بعد سو سال تک کوئی جان زمین پر نہیں رہے گی) کی نفی کی وجہ سے کسی کو چنداں مفید نہیں اور جو شخص اس کے بعد صحابیت کا دعویٰ کرتا ہے تو لازم آتا ہے کہ اس کا دعویٰ اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح مخالف ہے۔
پھر میں نے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے مزید فتاویٰ بھی دیکھے جس میں اُنہوں نے لکھا تھا کہ
’’معمر والی روایت بالکل بے اصل ہے اور معمر مذکور یا تو کذاب ہے یا اس کی طرف کسی کذاب نے جھوٹ گھڑا ہے اور علیٰ الاطلاق فوت ہونے والے آخری صحابی ابوطفیل عامر بن واثلہ لیثی رضی اللہ عنہ ہیں ۔امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت بیان کی ہے اور جو شخص ابوطفیل رضی اللہ عنہ کے بعد صحابیت کا دعویٰ کرتا ہے، وہ کاذب ہے۔‘‘ (الحاوي للفتاوي از سیوطی :ج۲/ص۲۶۲تا۶۶۴)
2. قاضی شمہورش جنی
اس کا ترجمہ ہمیں کہیں مل نہیں سکا۔ غالباً یہ جنات میں سے تھا جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے۔ علامہ کتانی نے فہرس الفہارس میں عبد الباقی لکھنوی کے ترجمہ کے تحت قاضي مَھنیۃ الصحابي الجني کا ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں :
’’ومن غرائب روایتہ روایۃ لنیف وأربعین حدیثا عن جدہ محمد عبد الرزاق عن القاضي مہنیۃ الجني الصحابي فیما ذکر عن المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘
’’اسکے غرائب میں سے چالیس سے زائد وہ روایات ہیں جو یہ اپنے دادا محمد عبد الرزاق سے وہ قاضی مہنیہ جنی صحابی سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔‘‘ (۱/۲۴۶،۲/۷۴۲)
آغاز میں درج کردہ سند بھی چونکہ عبد الباقی لکھنوی سے ہے، اور علامہ کتانی کا یہ تبصرہ بھی عبد الباقی لکھنوی کے ترجمہ کے ضمن میں درج ہے ، اس لئے شمہورش اور مھنیہ کا ایک