کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 159
’’بعض جہال کے بارے میں جو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے اللہ سے درازیٔ عمر کی دعا کی۔ اس روایت کی ائمہ حدیث اور علماے سنت کے نزدیک کوئی اصل نہیں ، ایسی روایات سب کی سب موضوع ہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے بعد ۹۵ سال سے زیادہ زندگی نہیں گزاری اور وہ (اتنی مدت گزارنے والے صرف) ابوطفیل رضی اللہ عنہ ہیں ، جن کی وفات پر لوگ روتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری صحابی رضی اللہ عنہ ہیں اور یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق درست و مصدقہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عمر میں عشا کی نماز پڑھائی اور اپنے اصحاب کو فرمایا: (( أریتکم لیلتکم۔۔۔ الخ)) 3. ایسی روایات اور اس نوعیت کے دعوؤں کے بارے میں علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قلت: ودعوٰی من ادعی الصحبۃ أو ادّعِیتْ لہ بعد أبي الطفیل وھم جبیر ابن الحارث والربیع بن محمود الماردني ورتن وسرباتک الھندیان ومعمر ونسطور أو جعفر بن نسطور الرومي وبسر بن عبید اللہ الذین کان آخرھم رتن فإنہ فیما قیل: مات سنۃ اثنتین وثلاثین وستمائۃ، باطلۃ (فتح المغیث :۳/۱۴۰) ’’میں کہتا ہوں کہ حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ کے بعد جس نے صحابیت کا دعویٰ کیا یا جس کے بارے میں صحابی ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے مثلاً جبیر ابن حارث، ربیع بن محمود ماردنی، رتن ہندی، سرباتک ہندی، معمر، نسطور یا جعفر بن نسطور رومی اور بسر بن عبیداللہ ہیں اور ان میں سب سے آخر میں رتن ہندی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ۶۳۲ھ میں مرا، یہ دعوی سرا سر باطل ہے۔‘‘ 4. معمر کی روایات کے متعلق ایسا ہی مسئلہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے بھی پیش ہوا اور اُنہوں نے تفصیل سے ان روایات کے بارے میں اپنا موقف دلائل کے ساتھ ذکر کیا۔یہ تفصیل علامہ کی اپنی زبانی ان کی ایک کتاب سے من وعن درج ذیل ہے : ’’کسی نے ان سے سوال کیا کہ أبو العباس المُلثِّم عن معمر الصحابي أن النبي رآہ یوم الخندق وھو ینقل التراب بغلقین وبقیۃ الصحابۃ ینقلون بغلق واحد فضرب بکفہ الشریف بین کتفیہ وقال لہ: عمّرک اللہ یا معمر۔۔۔ ’’ابوالعباس ملثم معمر صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق والے دن اس کو