کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 157
’’اس کردار کو مغاربہ کے بعض کذاب لوگوں نے گھڑا ہے۔‘‘
٭ مزید معمر بن بُریک کے ترجمہ میں اس کا ذکر یوں کرتے ہیں : ’’وقد وقع نحو ھذا في المغرب محدث شیخ یقال لہ أبوعبد اللہ محمد الصقلي قال: صافحني شیخی أبو عبد ﷲ معمر وذکر أنہ صافح النبي صلی اللہ علیہ وسلم وأنہ دعا لہ فقال لہ: عَمَّرک اللہ یا معمر فعاش أربع مائۃ سنۃ وأجاز لي محمد بن عبد الرحمن المکناسي من المغرب بضع عشرۃ وثمان مائۃ أنہ صافح أباہ صافح شیخا یقال لہ: الشیخ علي بن الخطاب بتونس وذکر لہ أنہ لہ مائۃ وثلاثۃ وثلاثین عامًا وأن الخطاب صافح الصقلي وذکر أنہ عاش مائۃ وستین سنۃ قال الصقلي: صافحني شیخي أبو عبد اللہ معمر وذکر أنہ صافح النبي صلی اللہ علیہ وسلم وأنہ دعا لہ فقال: عمّرک اللہ یا معمر فعاش أربع مائۃ سنۃ۔ فھذا کلہ لا یفرح بہ من لہ عقل۔(لسان المیزان :۶/۶۹)
’’مغرب میں ایک محدث شیخ جنہیں ابوعبداللہ محمد صقلی کہا جاتا ہے، نے کہا کہ مجھ سے میرے شیخ ابوعبداللہ معمر نے مصافحہ کیا اور ذکر کیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے دعا کی کہ اے معمر! اللہ تجھے لمبی عمر دے۔ پس وہ ۴۰۰ سو سال تک زندہ رہے اور مجھے اجاز ت دی محمد بن عبدالرحمن مکناسی مغربی نے تقریباً ۸۱۰ھ میں کہ اس نے اپنے باپ سے مصافحہ کیا جنہوں نے اپنے شیخ علی بن خطاب تیونسی سے مصافحہ کیا اور ا س کی عمر ۱۳۳ سال تھی اور خطاب نے صقلی سے مصافحہ کیا اور اس کی عمر ۱۶۰ سال تھی اور صقلی نے کہا کہ مجھ سے مصافحہ کیا میرے شیخ ابوعبداللہ معمر نے اور اُنہوں نے ذکر کیا کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دعا دی، فرمایا: اے معمر! اللہ تیری عمر دراز کرے۔ پس وہ ۴۰۰ سال تک زندہ رہے۔ (میں ابن حجر کہتا ہوں ) کوئی عقل مند آدمی ان باتوں سے کبھی مطمئن نہیں ہوسکتا۔‘‘
٭ اور اسی طرح ابن حجر الملثم کے طریق سے اسناد بیان کرکے لکھتے ہیں : ذلک مما لا أَعتَمِد علیہ ولا أَفرح بعلوہ ولا أذکرہ إلا استطرادًا (ایضاً:۱/۷۱)
’’یہ سلسلۂ اسناد ایسا ہے کہ میں اس پراعتماد نہیں کرتا اور نہ ہی اس کے عالي سند ہونے پر