کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 156
اعتبار ہوتی ہے۔ ایسی حدیث سے شریعت ِمطہرہ کا کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا۔ اس لئے اس نوعیت کی تمام روایات میں اگر مذکورہ بالا چار بنیادی رواۃ کا جائزہ لے لیا جائے جو ہر کسی سلسلہ سند میں کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہیں ، تو اس سے اس روایت کی فنی وشرعی حیثیت کا واضح تعین بخوبی ہوجائے گا۔ مذکورہ بالا چاروں راوی اپنی اپنی روایت میں اس امر کے مدعی ہیں کہ انہوں نے یہ فرمان نبی آخر الزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ گویا وہ اس طرح اپنے شرفِ صحابیت کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ محدثین نے مدعیانِ صحبت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حدیث (( أرأیتکم لیلتکم ھذہ فإن رأس مائۃ سنۃ عنھا لا یبقی فمن ھو علی ظھر الأرض أحد)) (صحیح بخاری :۵۶۳) اور (( ما علی الأرض من نفس منفوسۃ الیوم یأتي علیھا مائۃ وھی حیۃ یومئذ)) (صحیح مسلم:۲۵۳۸) ’’ آج سے سوسال بعد جو ذی روح بھی زمین پر ہے، وہ زندہ نہیں رہے گا۔‘‘ سے یہ اُصول اَخذ کیا ہے کہ مدعی صحبت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے بعد سوسال کے بعد کانہ ہو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان۱۰/ہجری کا ہے جبکہ علیٰ الاطلاق آخری صحابی ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ ہیں جس پر محدثین کا اتفاق ہے۔ (فتح المغیث :۳/۱۳۹) اور آپ رضی اللہ عنہ راجح قول کے مطابق ۱۱۰ھ میں فوت ہوئے۔ (تقریب:۱/۳۸۹) گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے بعد ابوطفیل رضی اللہ عنہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے آخر میں فوت ہونے والے شخص تھے، ان کے بعد روئے زمین پر کوئی بھی صحابی رضی اللہ عنہ باقی نہ رہا۔ اس وجہ سے ۱۱۰ہجری کے بعد کے مدعیانِ صحبت کا کوئی اعتبار نہیں ۔ مذکورہ تمہید کے بعد اب ہم روایات کے مرکزی کرداروں کا بالترتیب ذکر کرکے ان کی حیثیت واضح کرتے ہیں ۔ 1. ابوعبداللہ المعمرالصحابی کی حیثیت ؛ ماہرین فن کی نظر میں 1. حافظ ابن حجر کے اقوال: یہ وہ شخص ہے جس نے حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد صحابیت کا دعویٰ کیا اور اس کی عمر ۴۰۰ سال بتائی جاتی ہے اور اس کی اس روایت کو روایت مسلسل بالمصافحۃ المعمریۃکہا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’شخص اختلق اسمَہ بعض الکذابین من المغاربۃ‘‘ (الإصابۃ :۶/۲۹۱)