کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 155
’’اسناد دین کا حصہ ہے اور اگر اسناد نہ ہوتی تو کوئی جو چاہتا کہہ دیتا۔‘‘ (مقدمہ صحیح مسلم )
محدثین نے جہاں عام رواۃ کے لئے أسماء الرجال کا علم مدوّن کیا اور رواۃ پر جرح وتعدیل کے ضوابط مقرر فرمائے،وہاں ایسے لوگ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے مدعی ہیں ، ان کے اس دعویٰ کو پرکھنے کے لئے بھی کئی تفصیلات اور اصول ترتیب دیے اور اس دعوائے صحابیت کی تصدیق کے بعد یہ اُصول بھی طے کردیاکہ صحابہ رضی اللہ عنہم سب کے سب عدول٭ہیں اور وہ کسی بھی قسم کی جرح سے مبرا ہیں ۔
(دیکھئے : الإصابۃ:۱/۱۶۲، علوم الحدیث: ص۲۶۴)
لیکن اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ مدعیٔ صحبتعادل ہو، یعنی وہ اپنے صحابی ہونے میں سچا ہو۔ جب کسی کا صحابی ہونا ثابت ہوجائے تو اس پرہر طرح کی جرح ساقط ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ واضعین احادیث نے جب محدثین کی دوسرے ذرائع پر گرفت دیکھی اور نسبت ِصحابیت کے دروازے کو وا جاناتواسے چور دروازہ کے طور پر استعمال کرنا چاہا اور صحابیت کا دعویٰ کرکے روایات بیان کرنا شروع کردیں جبکہ پاسبانِ ورثہ نبوت آنکھیں کھلی رکھے ہوئے تھے، لہٰذا ان کی نظروں سے ایسے مفسد ِدین لوگ بچ نہ سکے اور علوم نبوت کے پہرہ داروں نے ان ’چوروں ‘ کی نقاب کشائی کا پورا پورا انتظام وانصرام کیا اور ان کے زہد و تقویٰ کے مصنوعی لبادوں کو بیچ چوراہے چاک کیا۔
مذکورہ بالا اور اس معنی کی جملہ روایات کے سلسلۂ سند کی تان چار شخصیات:1. معمر الصحابی 2. قاضی شمہورش جنی3. ابوسعید الحبشی اور4. خضر علیہ السلام پر ٹوٹتی ہے۔اور یہ راوی یا تو وہ ہیں جن کی طرف شرفِ صحابیت کو منسوب کیا جاتا ہے یا جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دوسو سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا دعوی کیا اور ان کے متعلق مشہور ہے کہ ان لوگوں نے لمبی عمر پائی جس کی وجہ سے ایسے لوگوں کو مُعَمّرین کہا جاتا ہے۔
یہاں ہم اپنے بعض قارئین کی یاددہانی کے لئے فن حدیث کے اس مشہور اُصول کا تذکرہ مناسب خیال کرتے ہیں کہ اگر سلسلۂ سند میں کوئی ایک راوی بھی غیر عادل، غیر ثقہ ہو یا سلسلۂ سند کسی ایک مقام سے بھی منقطع ہو تو فن حدیث کی رو سے وہ روایت ’ضعیف‘ یعنی ناقابل
__________________
٭ ماہنامہ محدث میں تفصیلی تحقیقی مضمون دیکھئے: ’تمام صحابہ عادل ہیں‘ (شمارہ مارچ ۱۹۹۵ء ، ص ۶۶ تا آخر)