کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 154
اللہ تعالیٰ کا اُمت ِمحمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ احسان ہے کہ اس نے شریعت ِمحمدی کو غش و غل سے محفوظ رکھنے کے لئے اسباب پیدا فرما دیے کہ دین کے اس چشمہ صافی کو گدلا کرنے کی کوئی کوشش آج تک کامیاب نہیں ہو سکی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدصحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایسا مصدر تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے کماحقہ گواہ تھے، پھر ان ہستیوں کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب من گھڑت روایات کا دور دورہ شروع ہوا جن کی روک تھام کے لئے اللہ تعالیٰ نے محدثین کا سلسلہ پیدا فرمایا جنہوں نے نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو جمع فرمایا بلکہ قرآن وسنت کی روشنی میں راوی اور روایت کو پرکھنے کے ایسے متفقہ اُصول وضع کئے کہ من گھڑت روایات احادیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئیں ۔انہوں نے ان اُصولوں کی کسوٹی پر ہر ایک راوی کو پرکھا جس کی زد میں بظاہر زہد و تقویٰ کے مرقع، ائمہ و صلحا اور صوفیا سب کے سب آئے اور اس طرح کھرے کو کھوٹے سے الگ کردیا گیا۔
اس سلسلہ میں محدثین کرام کی روشن دماغی اور گرانقدر خدمات کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہارون الرشید کے پاس ایک زندیق لایا گیا انہوں نے اس کے قتل کا حکم دیا تو زندیق نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! آپ کیا سمجھتے ہیں ، میں نے آپ کے درمیان چار ہزار حدیثیں گھڑی ہیں او ران میں حلال کو حرام اورحرام کو حلال کیا ہے جس کا ایک حرف بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا۔(میرے قتل کر دینے سے یہ حدیثیں تو نہیں مٹ جائیں گی؟)یہ سن کر خلیفہ ہارون الرشید نے کہا : ’’أین أنت یا زندیق؟ من عبد ﷲ بن المبارک وأبي إسحاق الفرازي ینخلانہا فیخرجانہا حرفا حرفا ‘‘ ’’ اے زندیق ! تو عبد اللہ بن مبارک اور ابو اسحق فرازی سے بچ کر کہاں جائے گا؟ وہ تیری ان واہیات کو چھانٹ لیں گے اور اس کا ایک ایک حرف الگ نکال لیں گے۔‘‘ (تہذیب التہذیب:۱/۱۵۲، تنزیہ الشریعۃ:۱/۱۶)
محدثین نے اسناد کا سلسلہ شروع کرکے ہر مفتری و فاسق کا قافیہ تنگ کردیا کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی ایسی بات منسوب نہ کرسکے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کہی ہو۔ عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’الإسناد من الدین ولو لا الإسناد لقال من شاء ما شائ‘‘