کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 152
حدیث وسنت کامران طاہر
’روایت مسلسل بالمصافحہ‘ کا تحقیقی جائزہ
اِمسال رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں لاہور میں ایک نئی بدعت کا احیا ہوا، جس کی تفصیل یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے ایک موضوع وغیرمعتبر روایت کی بنا پر اپنے پیروکاروں کو جنت کے ٹکٹ بانٹنا شروع کئے۔ اور یہ دعویٰ کیا کو جو شخص مجھ سے مصافحہ کرے گا، اس کے لئے اس روایت کی رو سے جنت لازم ہو جائے گی۔ نہ صرف یہ کہ اس مصافحہ کے لئے لوگوں کی قطاریں لگیں بلکہ اس کی مصدقہ سندبھی ڈاکٹر صاحب کی طرف سے جاری کی جانے لگی، جس پر ان کے دستخط اور مہر بھی ثبت ہے۔ لوگوں کو اس قدر آسانی سے جنت کے پرمٹ ملیں تو اور کس چیز کی ضرورت ہے… ؟
کتاب وسنت اور علومِ نبوت کے محافظوں کو حسب ِسابق اس صورتحال پر گہری تشویش ہوئی اور اُنہوں نے اس بنیاد کا سراغ لگایا، جس پر یہ سارا ڈھونگ کھڑا کیا گیا ہے۔ ذیل میں اسی روایت کا تفصیلی وتحقیقی جائزہ قارئین ِ محدث کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے جسے ادارہ محدث کے ریسرچ فیلو جناب کامران طاہر نے تحریر کیا ہے۔ حدیث وسنت کے متوالوں کا فرض ہے کہ وہ اس تحریر کو بھی اسی حد تک پھیلائیں جہاں جہاں اس بدعت کا بول بالا ہوا ہے تاکہ ہمارے ذمے عائد اسلام کی حفاظت کا فرض پورا ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین کا قیامت تک محافظ ومددگار ہے۔ و اللہ المستعان (ح م)
آج کل ہمارے ہاں اس روایت کا بڑا چرچا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’من صافحني أو صافح من صافحنی إلیٰ یوم القیامۃ دخل الجنۃ‘‘ ’’جس نے مجھ سے مصافحہ کیا اور جس نے مجھ سے مصافحہ کرنیوالے سے قیامت تک مصافحہ کیا تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
’حدیث ِمسلسل‘ سے مراد محدثین کے ہاں ’’کسی حدیث کی سند کے رواۃ کی کسی ایک حالت یاصفت کا تسلسل سے منقول ہونا ہے۔‘‘ جس حدیث میں یہ حالت یا صفت پائی جائے، اسے حدیث ِمسلسل کہتے ہیں ۔زیر بحث روایت میں چونکہ راویان کی صفت ’باہمی مصافحہ‘ کا ذکر ہے، اس لیے یہ روایت مسلسل بالمصافحہ کے نام سے مشہور ہے۔
ذیل میں یہ واضح کیاجائے گاکہ محدثین کے ہاں اس روایت کی حیثیت کیا ہے؟