کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 149
نصف جُمادی الا ُ خریٰ ۳ ہجری کو حضرت عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ مع اپنے رفقا رضی اللہ عنہم کے خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔ (تاریخ طبری:ج۳/ ص۶) صحیح بخاری میں حضرت براء رضی اللہ عنہ بن عازب سے مروی ہے کہ غروبِ آفتاب کے بعد لوگ جب اپنے جانور چرا گاہ سے واپس لاچکے تھے تو یہ لوگ خیبر پہنچے۔ابورافع کا قلعہ جب قریب آگیا تو حضرت عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے اپنے رفقا سے کہا: تم یہیں بیٹھو، میں قلعہ کے اندر جانے کی کوئی تدبیر نکالتا ہوں ۔ جب بالکل دروازہ کے قریب پہنچ گئے تو کپڑا ڈھانک کراس طرح بیٹھ گئے جیسے کوئی قضاے حاجت کرتا ہو۔ دربان نے یہ سمجھ کر یہ ہمارا ہی کوئی آدمی ہے، یہ آواز دی کہ اے اللہ کے بندے! اگر اندر آنا ہے تو جلد آؤ ورنہ دروازہ بند کرتا ہوں ۔ میں فوراً داخل ہوگیا اور ایک طرف چھپ کر بیٹھ گیا۔ ابو رافع بالا خانہ پر رہتا تھا اور شب کو قصہ گوئی ہوتی تھی۔ جب قصہ گوئی ختم ہوگئی اور لوگ اپنے اپنے گھر واپس ہوگئے تو دربان نے دروازہ بند کرکے چابیوں کا حلقہ ایک کیل پر لٹکا دیا جب سب لوگ سوگئے تو میں اُٹھا اور کھونٹی سے چابیوں کا حلقہ اُتار کر دروازہ کھولتا ہوا بالا خانہ پر پہنچا اور جو دروازہ کھولتا تھا، وہ اندر سے بند کرلیتا تھا تاکہ لوگوں کو اگر میری خبر بھی ہوجائے تو میں اپنا کام کرگذروں ۔ جب میں بالا خانہ پر پہنچا تو وہاں اندھیرا تھا اور ابورافع اپنے اہل وعیال میں سو رہا تھا۔ مجھ کومعلوم نہ تھا کہ ابورافع کہاں اور کدھر ہے؟ میں نے آواز دی: اے ابورافع!… ابورافع نے کہا: کون ہے ؟ میں نے اسی جانب ڈرتے ڈرتے تلوار کا وار کیا مگر خالی گیا۔ ابورافع نے ایک چیخ ماری، میں نے تھوڑی دیر بعد آواز بدلی اور ہمدردانہ لہجہ میں کہا ابورافع یہ کیسی آواز ہے؟ ابورافع نے کہا کہ ابھی مجھ پر کسی شخص نے تلوار کا وار کیا ہے۔ یہ سنتے ہی میں نے تلوار کا دوسرا وار کیا جس سے اُسے کاری زخم آیا۔ بعد ازاں میں نے تلوار کی دھار اس کے پیٹ پررکھ کر اس زور سے دبائی کہ پشت تک پہنچ گئی جس سے میں سمجھا کہ میں اب اس کا کام تمام کرچکا اور واپس ہوگیا اور ایک ایک دروازہ کھولتا جاتا تھا۔ جب سیڑھی سے اُترنے لگا تو یہ خیال ہوا کہ زمین قریب آگئی لیکن اترنے میں گر پڑا اور پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ چاندنی رات تھی اور میں نے عمامہ کھول کر ٹانگ کو باندھا اور اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور کہا کہ تم چلو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت سناؤ۔ میں یہیں بیٹھا ہوں ، اس کی موت اور قتل کا