کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 148
اسلام لانے اور معذرت خواہی کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سزا دے سکتے تھے، مگر آپ نے تحمل و بردباری کے پیش نظر اس پر کرم نوازی فرمائی اور اسے معاف کردیا۔(الصارم المسلول ص۱۰۶) 10. ابورافع یہودی کا قتل :عن البراء بن عازب قال بعث رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم إلی أبي رافع الیھودي رجالا من الأنصار فأمّر علیھم عبدﷲ بن عتیک وکان أبو رافع یؤذي رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم و یُعین علیہ ( صحیح بخاری:۴۰۳۹) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابورافع یہودی کوقتل کرنے کے لئے چند انصار کا انتخاب فرمایا جن پر عبداللہ بن عتیک کو امیر مقرر کیا گیا۔ اور یہ ابورافع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کی مدد کیا کرتا تھا۔‘‘ ابورافع کے قتل کا واقعہ جو کتب حدیث و کتب تاریخ و سیر میں ذکر کیا گیا ہے، اسے مفصل طور پرملاحظہ فرمائیں ۔ابورافع ایک بڑا مالدار یہودی تاجر تھا۔ ابورافع اس کی کنیت اور عبداللہ بن الحقیق اس کا نام تھا، اسے سلام بن ابی الحقیق بھی کہتے تھے۔ خیبر کے قریب گڑھی میں رہتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت دشمن تھا اور طرح طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا اور تکلیف پہنچاتا تھا۔ کعب بن اشرف کا معین اور مددگار تھا۔ یہی شخص غزوۂ احزاب میں قریش ِمکہ کو مسلمانوں پراُبھار کرلایا تھا اور بہت زیادہ ان کی مالی امداد کی اور ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی عداوت میں روپیہ خرچ کرتا رہتا تھا۔ (البدایہ و النہایہ:۴/۱۳۷) کعب بن اشرف کے قاتل محمد بن مسلمہ اور ان کے رفقا رضی اللہ عنہم چونکہ سب قبیلہ اوس کے تھے، اس لئے قبیلہ خزرج کو یہ خیال ہواکہ قبیلہ اوس نے تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک جانی دشمن اور بارگاہِ رسالت کے ایک گستاخ اور دریدہ دہن کعب بن اشرف کو قتل کرکے سعادت اور شرف حاصل کرلیا لہٰذا ہم کو چاہئے کہ بارگاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے گستاخ اور دریدہ دہن ابورافع کو قتل کرکے دارین کی عزت و رفعت حاصل کریں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر ابورافع کے قتل کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔ (فتح الباری :۷/۳۴۲ ) اور عبداللہ بن عتیک، مسعود بن سنان، عبداللہ بن انیس، ابوقتادہ، حارث بن ربعی اور خزاعی بن السود رضی اللہ عنہم کو اس کے قتل کے لئے روانہ فرمایا اور عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کو ان پر امیر بنایا اور تاکید فرمائی کہ کسی بچے اور عورت کو ہرگز قتل نہ کرنا۔( ایضاً:۷/ ۳۴۳)