کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 147
سے اکثر مسلمان ہوچکے تھے۔ ان کے مسلم اور کافر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہمہ تن پیکر ِہمدردی وخیرخواہی تھے۔ بنوبکر قریش کے حلیف بن گئے، یہ سب لوگ آپ کے معاہد بن گئے۔ اور یہ وہ بات ہے جوتواتر سے ثابت ہے اور اہل علم کے ہاں اس میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔
انس بن زنیم کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا تھاکہ معاہد ہونے کے باوجود اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ہے۔ چنانچہ قبیلہ خزاعہ کے کسی آدمی نے اس کے سر پر چوٹ ماری اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو لکھی ہے۔ اس سے ان کا مقصد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنوبکر کے خلاف بھڑکانا تھا۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دے دیا اور کسی اور کے خون کو رائیگاں قرار نہ دیا۔ اگر اُنہیں یہ بات معلوم نہ ہوتی کہ معاہد کی ہجوکہنے سے اس سے انتقام لینا واجب ہوجاتا ہے تو وہ ایسا نہ کرتے۔ اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دیا حالانکہ اس نے معاہد ہوتے ہوئے ہجو گوئی کا ارتکاب کیاتھا۔ لہٰذا یہ اس ضمن میں واضح دلیل ہے کہ ہجو گو معاہد کا خون مباح ہوجاتا ہے۔
بعد ازاں جب وہ حاضر ہوا تو اس نے اپنے اشعار میں اسلام لانے کا اظہار کیا۔ اسی لئے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں شمار کیا گیا ہے۔ اس کے اشعار میں یہ الفاظ کہ ’’تعلَّم رسول ﷲ اور نبي رسول ﷲ‘‘ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ پہلے اسلام لاچکا تھا یا یہ کہ اس کا یوں کہنا ہی اس کا اسلام لانا ہے۔ اس لئے کہ بت پرست جب محمد رسول ﷲ کہے تو اسے مسلم قرار دیا جائے گا۔ اس نے ہجو گوئی سے انکار بھی کیا تھا اوران لوگوں کی شہادت کو یہ کہہ کر ردّ کردیا تھا کہ وہ اس کے دشمن ہیں ، اس لئے کہ دونوں قبیلوں کے درمیان عرصہ سے حرب و ضرب کا سلسلہ چلا آرہا تھا۔ اگر اپنی اس حرکت سے وہ مباح الدم نہ ہوجاتا تو اسے اس بات کی ضرورت نہ تھی۔
پھر اسلام لانے، معذرت خواہی، مخبرین کی تردید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح گوئی کے بعد اپنے خون کو رائیگاں قرار دینے کے بارے میں اس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی طلب کی، حالانکہ معافی تب دی جاتی ہے جب جرم کی سزا دینے کا جواز موجود ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ