کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 144
لیکن قتل کا سب سے قوی سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں دریدہ د ہنی،سب و شتم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں اشعار کہنا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول میں ص۷۰ تا ۹۱ پر اس پر مفصل کلام کیا ہے۔ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ آیت﴿وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ أشرَکُوْآ اَذًی کَثِیْرًا﴾ (آلِ عمران :۱۸۶) ’’البتہ سنو گے تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت بدگوئی اور بدزبانی‘‘ کعب بن اشرف کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (عیون الاثر: ۱/۳۰۰) امام عبدالرزاق بن ہمام یمانی رحمۃ اللہ علیہ کے مقام اور مرتبہ سے اہل علم واقف ہیں ۔ یہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے جلیل القدر استاذ اور تبع تابعی ہیں ۔ ان کے مجموعہ احادیث کا نام المصنف ہے۔ اس میں اکثر احادیث ثلاثی ہیں اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تصریح کے مطابق تمام حدیثیں صحیح ہیں ۔ اس میں امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے سَبّ النبي صلی اللہ علیہ وسلم کا علیحدہ باب قائم کیا ہے۔ جس میں حسب ِذیل روایات ذکر کی ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : 4. ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دشنام طرازی کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کون ہے جو ہمارے اس دشمن کی خبر لے گا؟ اس پر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں حاضر ہوں ۔ پھر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے جاکر اس گستاخ کو قتل کردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو اس کا چھینا ہوا مال عطا کر دیا۔ (ج۵/ص۳۰۷) 5. ایک بدبخت عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی رہتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کردیا۔ ( ج۵/ص۳۰۷) 6. ایک نصرانی شخص کے بارے میں ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی تھیں جس پر اس کو قتل کردیا گیا تھا۔ (ج۵/ص۳۰۷) 7. حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: جاؤ اگر وہ مل جائے تو اسے قتل کردو۔ (ج۵/ص ۳۰۸) 8. حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیاکہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی، اس کی گردن مار دی جائے۔ (ج۵/ص ۳۰۸)