کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 139
کہو جو وہ کہا کرتی تھی تو میں اپنی تلوار سے تم پر وار کروں گا، یہاں تک کہ میں مارا جاؤں یا تمہیں قتل کردوں ۔ اس دن سے اسلام بنی خطمہ میں پھیل گیا۔ قبل ازیں ان میں سے کچھ آدمی ڈر کے مارے اپنے اسلام لانے کو پوشیدہ رکھتے تھے۔ (الصارم المسلول: ص۹۴ومجمع الزوائد: ۶/۴۶۰) 6. واقدی نے لکھا ہے کہ بنو عمرو بن عوف میں ایک شیخ تھا جس کو أبوعفک کہتے تھے۔ نہایت بوڑھا تھا اوراس کی عمر ایک سو بیس سال تھی۔ یہ شخص مدینہ آ کر لوگوں کو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت پر بھڑکایا کرتا تھا۔اس نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدر تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح وکامرانی سے نوازا تو وہ حسد کرنے لگا اور بغاوت پر اُتر آیا اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی مذمت میں ایک ہجویہ قصیدہ کہا۔ سالم بن عمیر نے نذر مانی کہ میں أبوعفک کو قتل کروں گا یا اسے قتل کرتے ہوئے مارا جاؤں گا ۔سالم اس کی غفلت کی تلاش میں تھا۔موسم گرما کی ایک رات تھی اور أبوعفک موسم گرما میں قبیلہ بنو عمرو بن عوف کے صحن میں سو رہا تھا۔اندریں اثنا سالم بن عمیر آیا اور تلوار اس کے جگر پر رکھ دی اور دشمن بستر پر چیخنے لگا۔ اس کے ہم خیال بھاگتے ہوئے اس کے پاس آئے پہلے اس کے گھر میں لے گئے اور پھر قبر میں دفن کر دیا۔ کہنے لگے اسے کس نے قتل کیا ہے؟ بخدا اگر ہم کو قاتل کا پتہ چل جائے تو ہم اسے قتل کر دیں گے۔ شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : وہذا فیہ دلالۃ واضحۃ علیٰ أ ن المُعاہد إذا ظہر السبّ ینقض عہدہ ویقتل غیلۃ لکن ہو من روایۃ أہل المغازي وہو یصلح أن یکون مؤیدا مؤکدا بلا تردد (الصارم المسلول:ص ۱۰۴) ’’اس واقعہ میں اس امر کی واضح دلیل موجود ہے کہ معاہد اگر علانیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے تو اس کا عہد ٹوٹ جاتا ہے- اسے دھوکے سے قتل کیا جا سکتا ہے مگر یہ اہل مغازی کی روایت ہے اور بلا شبہ دوسری روایات کی مؤید ومؤکد ہو سکتی ہے۔‘‘ 7. کعب بن اشرف یہودی کا قتل:چھٹی حدیث جس سے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس امر پر استدلال کیا ہے کہ ذمی اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے تو اسے قتل کیا جائے۔