کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 137
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے مسئلہ زیر بحث پر قرآن و سنت کے نصوص اور صحابہ و تابعین کا مسلسل تعامل ذکرکرتے ہوئے آخر میں خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز کا یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ کسی شخص نے ان کو بر ابھلا کہا او ران کی ہتک عزت کی۔ غالباً اس علاقے کے گورنر نے حضرت عمر بن عبدالعزیز سے استصواب کیا ہوگا کہ ایسے مفسد شخص کو قتل کردیا جائے؟ تو اس کے جواب میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے گورنر کو لکھا کہ قتل صرف اس شخص کو کیا جاتا ہے جو شانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں دریدہ د ہنی کرے لہٰذا اس شخص کو قتل تو نہ کیا جائے ،البتہ سرزنش کے لئے اس کے سر پر اتنے کوڑے لگائیں جائیں او ریہ کوڑے لگانا بھی محض اس شخص کی اصلاح او ربہتری کے لئے ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں اس کے کوڑے لگانے کا بھی حکم نہ دیتا۔ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
وھذا مشہور عن عمر بن عبدالعزیز وھو خلیفۃ راشد عالم بالسنۃ متبع لھا فھذا قول أصحاب رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین لھم بـإحسان لایعرف عن صاحب ولا تابع خلاف لذلک بل إقرار علیہ واستحسان لہ۔ (الصارم المسلول: ص۲۰۵)
’’اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کا یہ واقعہ مشہور ہے جبکہ وہ خلیفہ راشد، قرآن و سنت کے عالم اور بے حد متبع سنت ہیں ۔ پس شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا واجب القتل ہونا صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمۃ اللہ علیہ کا اجماعی فیصلہ ہے اورکسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ اور ایک تابعی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی اس کے خلاف منقول نہیں ۔‘‘
خلاصہ یہ کہ اسلامی قانون کی رُو سے توہین ِرسالت کا مرتکب سزاے موت کا مستحق ہے اور اس مسئلہ پر تمام صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمۃ اللہ علیہم اور فقہائے اُمت متفق ہیں ۔
5. حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ
ھجت امرأۃ من خطمۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم فقال: (من لي بھا؟) فقال رجل من قومھا: أنا یارسول اللہ فنھض فقتلھا فأخبر النبي صلی اللہ علیہ وسلم فقال: (لا ینتطح فیھا عنزان) (الصارم المسلول: ص۹۵)
’’خطمۃ قبیلے کی ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اس عورت سے کون نمٹے گا؟ اس کی قوم سے ایک آدمی نے کہا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کام میں انجام دوں گا