کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 136
کی گردن اُڑا دوں ؟ میرے ان الفاظ سے ان کا سارا غصہ جاتا رہا اور وہ وہاں سے اُٹھ کر گھر چلے گئے او رمجھے بلابھیجا۔ میں گیا تو مجھ سے فرمایا کہ ابھی تم نے کیا کہا تھا؟ میں نے کہا: یہ کہا تھا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس شخص کی گردن اُڑا دوں ۔ فرمایا: اگر میں تم کو حکم کرتا توتم یہ کام کرتے؟ عرض کیا:آپ فرماتے تو ضرور کرتا۔ فرمایا: نہیں ! اللہ کی قسم یہ بات (کہ بدکلامی پر گردن اُڑا دی جائے) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے لئے نہیں ۔‘‘
مطلب یہ کہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بدزبانی کرنے والا سزائے موت کا مستوجب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی انسان ایسا نہیں جس کی بدگوئی کرنے والے کو سزائے موت دی جائے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حق حاصل تھا کہ اپنے گالی دینے والے کوقتل کردیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حق بھی حاصل تھاکہ اس شخص کو قتل کرنے کا حکم دیں جس کے بارے میں لوگوں کو کچھ علم نہ ہو کہ اسے کیوں قتل کیاجا رہا ہے۔ اس معاملہ میں لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنا چاہئے، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی بات کا حکم دیتے ہیں جس کا اللہ نے انہیں حکم دیا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی نافرمانی کا کبھی حکم نہیں دیتے۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے، وہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو خصوصیات ہیں : 1. آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس کو قتل کرنے کا حکم دیں ، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جائے۔ اور 2. جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے اور سخت سست کہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو قتل کرسکتے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دوسرا اختیار جو دیا گیا تھا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی باقی ہے ۔ لہٰذا جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں سخت الفاظ کہے تو اسے قتل کرنا جائز ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ حکم مؤکد تر ہوجاتا ہے، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تقدس اور حرمت وفات کے بعد اور زیادہ کامل ہوجاتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس و آبرو میں سہل انگاری اور تغافل شعاری ممکن نہیں ۔ اس حدیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلقاً قلت و کثرت کو ملحوظ رکھے بغیر گالی دینے سے ایسے شخص کا قتل مباح ہوجاتا ہے۔ علاوہ بریں اس حدیث کے عموم سے اس امر پر استدلال کیا جاتا ہے کہ ایسے شخص کو قتل کیا جائے قطع نظر اس سے کہ وہ مسلم ہو یا کافر۔‘‘ (الصارم المسلول: ص۹۴)