کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 135
یہود و نصاریٰ میں سے کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے تو اسے قتل کیا جائے گا، اِلا یہ کہ وہ مسلمان ہوجائے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ذمی آدمی اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے تو اسے قتل کیا جائے گا اور اس سے معاہدہ ختم ہوجائے گا اور وہ اس سلسلہ میں کعب بن اشرف کے قتل والی حدیث سے استدلال کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق کہا گیا ہے کہ ان کے نزدیک شاتم رسول ذمی کو قتل نہیں کیا جائے کیونکہ وہ جس کفریہ / شرکیہ عقیدہ میں مبتلا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے سے بھی زیادہ بڑاجرم ہے۔‘‘ 3. حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (من سبَّ نبیا قُـتِل ومن سبَّ أصحابہ جُلِدَ) (الصارم المسلول: ص۹۲) ’’جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی، اسے قتل کیا جائے اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالی دی تو اسے کوڑے مارے جائیں ۔‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اگر اس حدیث کی صحت ثابت ہوجائے تو یہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والے کو قتل کرنا واجب ہے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اسے توبہ کا مطالبہ کئے بغیر قتل کیا جائے نیزیہ کہ قتل اس کے لئے حد شرعی ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک کسی نبی کو بھی جو گالیاں دے گا یا بُرا کہے گا تو وہ قتل کا مستحق ہے اور جو صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو بُرا کہے گا تو اسے کوڑے لگائے جائیں ۔‘‘ 4. حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کنتُ عند أبي بکر فتغیَّظ علی رجل فاشتد علیہ فقلت تأذن لي یا خلیفۃ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اَضرب عنقہ، قال فاذھبتْ کلمتي غضبَہ فقال فدخل فأرسل إليَّ فقال: ما الذي قلت آنفا قلت: ائذن لي اضرب عنقہ قال أ کنت فاعلا لو أمرتک؟ قلت: نعم قال: لا و اللہ ما کانت لبشر بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم (سنن ابوداود: ۴۳۶۳ ’صحیح‘) ’’میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ کسی شخص سے ناراض ہوئے تو وہ شخص درشت کلامی پر اتر آیا۔ میں نے کہا: اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اس