کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 134
النبي صلی اللہ علیہ وسلم وقد نقل ابن المنذر الاتفاق علی أن من سبّ النبي صلی اللہ علیہ وسلم صریحاً وجبَ قتلہ ونقل أبوبکر الفارسي أحد أئمۃ الشافعیۃ في کتاب الإجماع أن من سبَّ النبي صلی اللہ علیہ وسلم بما ھو قذف صریح کفر باتفاق العلماء فلو تاب لم یسقط عنہ القتل لأن حد قذفہ القتل وحد القذف لا یسقط بالتوبۃ (نیل الاوطار:۷/۱۸۹)
‘‘حدیث ِابن عباس رضی اللہ عنہ اور حدیث ِشعبی رحمۃ اللہ علیہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے، اسے قتل کردیا جائے۔ ابن منذر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ جو شخص صریحاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے اس کا قتل کرنا واجب ہے۔ ابوبکر فارسی جو ائمہ شافعیہ میں سے ہیں نے کتاب الإجماع میں نقل کیا ہے کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے تو وہ تمام ائمہ کے نزدیک کافر ہے۔ اگر وہ توبہ بھی کرلے تو پھر بھی اس سے سزاے قتل ساقط نہیں ہوسکتی، کیونکہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر) قذف کی حد قتل ہے اورحد ِقذف توبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔‘‘
٭ نسائی کے شارح امام سندھی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
فیہ دلیل علی أن الذمي إذا لم یکف لسانہ عن اللہ ورسولہ فلا ذمۃ لہ فیَحُلُّ قتلہ (حاشیہ نسائی:۷/۱۰۹)
’’حدیث ِابن عباس رضی اللہ عنہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ذمی آدمی جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زبان درازی سے باز نہ آئے تو اس کا معاہدہ ختم اور اس کا قتل جائز ہے۔‘‘
٭ امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
ولا أعلم أحدا من المسلمین اختلف في وجوب قتلہ ولکن إذا کان الساب ذمیا فقد اختلفوا فیہ فقال مالک بن أنس: من شتم النبي صلی اللہ علیہ وسلم من الیھود والنصاریٰ قتل إلا أن یسلم،وکذلک قال أحمد بن حنبل وقال الشافعي: یقتل الذمي إذا سبَّ النبي صلی اللہ علیہ وسلم وتبرأ منہ الذمۃ واحتج في ذلک بخبر کعب بن الأشرف۔۔۔وحُکِی عن أبي حنیفۃ أنہ قال: لایقتل الذمي بشتم النبي صلی اللہ علیہ وسلم ماھم علیہ من الشرک أعظم (معالم السنن:۳/۲۹۵)
’’شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے واجب ہونے میں مسلمانوں میں سے کسی کا اختلاف نہیں ہے لیکن جب شاتم ذمی ہو تو اس میں اختلاف ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ و احمد رحمۃ اللہ علیہ بن حنبل کے نزدیک