کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 132
یہ مسئلہ متواتر کا درجہ رکھتا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علماے سیر میں سے کوئی بھی اس کی مخالفت نہیں کرتا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو عام یہودیوں سے بلاجزیہ معاہدہ کیا گیا تھا۔ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول درست ہے۔‘‘ (الصارم المسلول: ص۶۲) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے ساتھ جزیہ کے بغیر معاہدہ کیا پھرایک یہودی عورت کے خون کو اس لئے رائیگاں قرار دیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی تو ایک یہودی عورت کے خون کو جس پر جزیہ عائد کیا گیا تھا اور وہ دینی احکام کے پابند بھی تھے بے کار ٹھہرا دیں تو یہ اولیٰ و افضل ہے اور اگر اس عورت کا قتل جائز نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کے قاتل کے فعل کی مذمت فرماتے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے : (( من قتل نفسا معاھدۃ بغیر حقھا لم یرح رائحۃ الجنۃ)) (ابن حبان :۱۱/۲۹۱، رقم :۸۳۸۲’صحیح‘) ’’جس نے کسی معاہد کو بلا وجہ قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کی ضمانت یا معصوم کو قتل کرنے کا کفارہ واجب کرتے۔ جب اس عورت کے خون کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رائیگاں قرار دیا تو اس سے معلوم ہوا کہ اسکا خون مباح تھا۔ 2. حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ أَنَّ أعمى كانتْ له أمُّ ولدٍ تشتمُ النبيَّ صَلَّى اللَّهُ عليْهِ وعلى آلهِ وسلَّمَ وتقعُ فيه فيَنهاها فلا تَنتهي ويزجرُها فلا تنزجرُ . قال : فلمَّا كانتْ ذاتَ ليلةٍ ، جعلَتْ تقعُ في النبيِّ صَلَّى اللَّهُ عليْهِ وعلى آلهِ وسلَّمَ وتشتمُهُ أخذَ المِغولَ فوضعَهُ في بطنِها واتكأَ عليْها فقتلَها ، فوقعَ بين رجليْها طفلٌ فلطخَتْ ما هناكَ بالدمِ . فلمَّا أصبحَ ذكرَ ذلكَ لرسولِ اللهِ – صَلَّى اللَّهُ عليْهِ وعلى آلهِ وسلَّمَ - فجمعَ الناسَ فقال أنشدُ اللهَ رجلًا فعلَ ما فعلَ ، لي عليهِ حقٌّ ، إلا قام . فقامَ الأعمى يَتخطى الناسَ ، وهو يتزلزلُ حتى قعدَ بينَ يديِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ فقال : يا رسولَ اللهِ ! أنا صاحبُها ، كانَتْ تشتمُكَ وتقعُ فيكَ فأنهاها فلا تَنتهي ، وأزجرُها فلا تنزجرُ ، ولي منها ابنانِ مثلَ اللؤلؤتينِ ، وكانَتْ بي رفيقةً ، فلمَّا كانتِ البارحةَ جعلَتْ تشتمُكَ وتقعُ فيكَ ، فأخذْتُ المِغولَ فوضعْتُهُ في بطنِها واتكأتُ عليْها حتى قتلتُها ، فقال النبيُّ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ : ((ألا اشهَدُوا