کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 131
ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز
ترتیب وتدوین: ادارۂ محدث
توہین ِرسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور احادیث ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم
اسلام ذاتِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد گھومتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات پر ایمان لانے کے بعد ہی انسان حلقہ اسلام میں داخل ہوتا ہے اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم سے دنیا جہاں سے بڑھ کر محبت رکھنا ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ دین کے تمام احکامات کے ہمارے علم میں آنے اور خود قرآن کے معلوم ہونے کا مصدر ومحور بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ذاتِ گرامی ہے۔پھر قرآن کریم میں جابجا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت ہی قرار دیا گیا ہے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اسلام میں اس قدر بنیادی حیثیت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر ومنزلت اور درجہ وفضیلت کا بھی پورا احترام برقرار رکھا جائے اور اس انسان کو دنیا میں زندہ رہنے کے حق سے محروم کردیا جائے جو محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم اور رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموسِ مبارک پر حملہ آور ہو۔ دورِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل واقعات سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے گستاخان کی سزاؤں سے اتفاق کیا یا خود آپ نے ایسے ظالموں کی سرکوبی اور اُنہیں راہِ عدم سدھانے کے لئے اپنے جانثار صحابہ متعین کئے۔
(ح م)
1. حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
أن یہودیۃ کانت تشتم النبي صلی اللہ علیہ وسلم وتقع فیہ فخنقھا رجل حتی ماتت فأبطل رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم دمَھا(ابوداود:۴۳۶۲’ضعیف‘)
’’ایک یہودی عورت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی۔ ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹ کر اسے ہلاک کردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے خون کو رائیگاں قرار دے دیا۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’یہ حدیث اس مسئلہ میں نص کا حکم رکھتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے والے کو قتل کرنا جائز ہے۔ نیز یہ کہ ایسے ذمی کو بھی قتل کیا جاسکتا ہے، پھرمسلم مرد یا عورت اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں تو ان کو بطریق اولیٰ قتل کرنا جائز ہے اس لئے کہ یہ عورت بھی ان لوگوں میں سے تھی جن کے ساتھ معاہدہ کیا گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کے تمام یہودیوں کے ساتھ مطلق معاہدہ کیا گیا تھا اور ان پرجزیہ بھی نہیں لگایا گیا تھا۔ اہل علم کے مابین