کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 129
کے بعد طائف میں آپ پر جو گزری وہ بقولِ عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا اندوہناک دن تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کے سرداروں کو دعوت دی تو ایک بدبخت نے کہا: اگر واقعی اللہ نے ہی آپ کو بھیجا ہے توپس وہ کعبہ کا غلاف نچوانا چاہتا ہے ۔دوسرے نے تمسخر اُڑاتے ہوئے کہا :کیا ربّ کو تمہارے علاوہ رسالت کے لیے کوئی اور موزوں آدمی نہیں ملا اور تیسرے نے کہا :اللہ کی قسم! میں تجھ سے بات تک نہیں کرنا چاہتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر وثبات اور تحمل سے یہ سارے تیر برداشت کیے۔
٭ پھر اُنہوں نے بازاری لونڈوں اور غلاموں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگا دیا، وہ آپ کو گالیاں دیتے، ٹخنے کی ہڈیوں پر پتھر مارتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نڈھال ہو جاتے تو بیٹھ جاتے ۔جوتیاں خون سے بھرگئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل بے دم ہو کر ایک باغ میں پناہ لی۔
اِسی عالم میں قرنِ منازل کے پاس جبرائیل حاضر ہوئے اور عرض کیا :پہاڑوں کا نگران فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہے، اگر آپ چاہیں تو وہ اس ظالم قوم کو دو پہاڑوں کے درمیان کچل دے۔اس وقت نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو الفاظ ارشاد فرمائے، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یگانہ روز شخصیت کی ایک جھلک اور آپ کے اخلاقِ عظیم کا جلوہ دیکھا جا سکتا ہے۔فرمایا:
’’نہیں ،بلکہ مجھے اُمید ہے کہ اللہ عزوجل ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔‘‘
اے پیغمبر کی توہین کرنے والو!مکہ اور اس کے باشندوں سے پوچھو،طائف اوراس کےپہاڑوں سےسوال کروکہ اس محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نبی کی عظمت کیا ہے؟
اللہ کی قسم! زبان وقلم کی وسعتیں ، مدتوں کی زمزمہ خوانیاں اور دفتروں کے دفتر بھی آپ کی عظمت کا احاطہ نہیں کر سکتے۔
کوئی بڑے سے بڑا سیرت نگار، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت نگاری کاحق ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، کوئی بڑے سے بڑا زور آور قلم بھی اس ہستی کے تذکر ہ کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے کایارا نہیں رکھتا…!!