کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 128
٭ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر پکڑ کر اسے بوسا دیا اور کہا کاش! میں اس وقت توانا اور زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی۔
رسول اللہ نے فرمایا: اچھا تو کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے کہا: ہاں ! جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایا، جیسا آپ لائے ہیں تو اس سے ضروردشمنی کی گئی اور اگر میں نے آپ کا زمانہ پا لیا تو آپ کی زبردست مدد کروں گا۔اس کے بعد ورقہ جلد ہی فوت ہوگئے۔ ( صحیح بخاری:۳)
پھر جب ﴿یٰأَیُّہَا الْمُدَثِّرُ،قُمْ فَأَنْذِرْ َورَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ﴾آیات نازل ہوئیں اور قوم کا یہ چمکتا ہوا ہیرا اور صادق وامین کا لقب پانے والا اللہ کا یہ پیغمبر دین الٰہی کی دعوت لے کر کھڑا ہوا توزمانہ کی آنکھوں کا رنگ ڈھنگ بدل گیا۔ مخالفتوں کے طوفان اُٹھے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو سنگین عذابوں سے گزرنا پڑا۔ آلِ یاسر پر جو بیتی تاریخ کے صفحات میں موجود ہے۔
یہ سب کچھ اس لیے برداشت کیا گیا کہ انسانیت شرک کی وادی سے نکل آئے۔حتیٰ کہ جب کفارِ مکہ کی سختیاں اور تشدد حد سے گزر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھیوں کو ہجرت کا حکم دینا پڑا۔
٭ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں کفار کے ظلم وستم کے مقابلے میں پہاڑ بن کر کھڑے ہوگئے۔ظلم وستم کی آندھیاں اُٹھیں اور گزر گئیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ہلکی سے لغزش بھی پیدا نہ کر سکیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے﴿ وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا کَبِیْرًا﴾ کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔
٭ جب کفار کی تمام تدابیر ناکام ہو گئیں تو اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب کی حسین وجمیل عورت، بادشاہت اور مال وزر کا لالچ دیا۔جب یہ سازش بھی ناکام ہو گئی تو اُنہوں نے دھمکیاں دیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عزیمت ِمجاہدانہ سے سرشار ہو کر یہ جواب دیا :
’’خدا کی قسم! یہ لوگ اگر میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پرچاند رکھ کر چاہیں کہ اس مشن کو چھوڑ دوں تو میں اس سے باز نہیں آ سکتا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس مشن کو غالب کر دے یا میں اس جدوجہد میں کام آ جاؤں ۔‘‘
٭ پھر ابو طالب اور مونس وغمگساربیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کا سالِ اندوہ اور اس