کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 127
بن جائے گا، اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا۔
٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف قریش اور جزیرۂ عرب کی طرف رسول بناکر نہیں بھیجے گئے،بلکہ پوری کائناتِ ارضی کی طرف رسول بنا کر مبعوث کیے گئے۔ بچپن سے چالیس سال تک آپ کی زندگی تقویٰ اور عفت کی اعلیٰ مثال اور چالیس سال سے وفات تک دعوت وجہاد کا عملی نمونہ، گویا بچپن سے وفات تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک کھلی ہوئی کتاب کی مانند تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس داعی ٔ برحق کے نقشہ زندگی کو دلیل کے طور پر پیش فرمایا:
﴿ لَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ أَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ﴾ (یونس :۱۶)
وہ شخص جس نے چالیس سال تک کسی سے جھوٹ نہیں بولا،ساری کسوٹیوں پر اپنے آپ کو کھرا ثابت کیا۔کیا عقل اس بات کوتسلیم کرتی ہے کہ اس کے بعد وہ اللہ پر جھوٹ باندھے گا؟ نہیں نہیں ، بلکہ کفارِ مکہ خود ہی اپنی عقل کے دشمن بن گئے تھے۔مفاد اور تعصبات نے ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا تھا۔
٭ اور پھر جب نبوت کا بھاری بوجھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر ڈال دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدید خوف کی حالت میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور فرمایا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو تو اس وقت آپ کی زندگی اور کردار سے واقف وہ خاتون پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہتی ہے:
’’ بخدا ! اللہ آپ کو رسوا نہیں کرے گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلہ رحمی کرتے ہیں ، در ماندوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں ، تہی دستوں کابندوبست کرتے ہیں ،مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں مصائب پر مدد کرتے ہیں ۔‘‘ (صحیح بخاری :۳)
پورا واقعہ معلوم کرنے کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اپنے چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو دورِ جاہلیت میں عیسائی مذہب قبول کر چکے تھے اور انجیل کے عالم تھے۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے پوری بات سننے کے بعد سنئے کہ وہ بوڑھا اورآنکھوں سے نابینا انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کہتا ہے: ’’یقینا یہ اِس اُمت کا نبی ہے۔‘‘ اور پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہا: ’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ تو وہی ناموس ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا کرتا تھا۔‘‘