کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 126
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ کو چومنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے سواد! تجھے ایسا کرنے پر کس بات نے آمادہ کیا؟ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جو کچھ درپیش ہے، آپ دیکھ ہی رہے ہیں ، شاید یہ میری آپ سے آخری ملاقات ہو تو میں نے چاہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آخری ملاقات اس طرح ہو کہ میری جلد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جلد سے چھو جائے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی۔دیکھئے! کائنات کا سپہ سالار اپنے آپ کو پورے لشکر کے سامنے قصاص کے لئے ایک سپاہی کے حوالے کررہا ہے۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت کا تذکر کئے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت مکمل نہیں ہوسکتی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر مبارک پر دونوں کندھوں کے درمیان تھی، بالکل ایسے جیسے کبوتر کا اَنڈہ۔ یہ جسم مبارک کے مشابہ تھی اور اس پر مسوں کی طرح تلوں کا جمگھٹ تھا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ اور نبوت کا نشان تھا جس کاتذکرہ اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کی کتابوں میں کیا ہے۔
اور بعض نے اس کی حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دل حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا تو اس پر یوں مہر لگا دی گئی جس طرح کہ کستوری سے بھری ہوئی تھیلی کو بند کرکے اس پرمہر لگا دی جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے ہادی اور معلم تھے، اللہ کی حدود کے معاملے میں انتہائی عادل اور سخت تھے لیکن اپنی ذات کے بارے میں لوگوں میں سب سے زیادہ نرم اور رحم دل تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادارتھے۔
ایسے رحمت وشفقت کے مجسمہ اور حیا دارپیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسی حیا باختہ تصاویر اور خاکے بناتے ہوئے ان لوگوں کوشرم آنی چاہیے تھی۔ قاتلہم ﷲ أنیٰ یؤفکون!جو تمام اعلیٰ انسانی کمالات کا حسین مرقع تھے اور دنیا کا کوئی انسان آپ کا ہم پلہ نہیں ہو سکتا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کے ظلم وستم کا جواب ایسی عظیم الشان دعوت سے دیا کہ کفر وشرک اور سرکشی کی تمام آندھیاں چھٹ گئیں اور دنیا کووہ درس دیا کہ آج چودہ سو سال گزرنے کے باوجود اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کر سکا۔
٭ عیسائی بادشاہ ہرقل نے ابو سفیان سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ سننے کے بعد اس سے یہ کہا تھا کہ جو کچھ تم نے بتایا ہے ، اگر وہ سچ ہے تو یہ شخص جلد میری ان دونوں قدموں کی جگہ کا مالک