کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 124
٭ اہل علم کہتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اگر دنیا کی آدھی خوبصورت دی گئی تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری دنیا کا حسن عطا کیا گیا۔ اُردو کا شاعر کہتا ہے : حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری آنچہ خوباں وہ ہمہ دارند تو تنہا داری ٭ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی کشادہ، ابرو خمدار، باریک اور گنجان، دونوں جدا جدا، دونوں کے درمیان ایک رگ کا اُبھار جو غصہ آنے پر نمایاں ہوجاتا۔ ناک بلندی مائل، اس پرنورانی چمک۔ دندان مبارک باریک، آبدار، سامنے کے دو دانتوں میں خوشنما ریخیں ، جب تکلم فرماتے تو دانتوں سے چمک سی مہکتی۔(ابن عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت انس رضی اللہ عنہ ) ٭ سر اور ریش کے بال گھنے اور گنجان تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی داڑھی نہیں منڈائی اور داڑھی چھوڑنے کا حکم دیا اور اسے منڈانے سے منع فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’(یہود نصاریٰ )کے ساتھ مشابہت اختیار نہ کرو۔ ‘‘ (ابوداؤد :۴۰۳۱) لیکن افسوس ! آج ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت اچھی نہیں لگتی…!! ٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال قدرے خمدار، نہ گھنگریالے اور نہ بالکل تنے ہوئے ۔ (انس رضی اللہ عنہ ) ٭ گنجان، کبھی کبھی کانوں کی لو تک لمبے، کبھی شانوں تک ۔ (براء بن عازب رضی اللہ عنہ ) ٭ سر اور ریش مبارک میں سفید بال ۲۰ سے زیادہ نہیں تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کا حسین سراپا دیکھتے اور دیکھتے ہی رہ جاتے۔ صحابہ کرام کی نبی ٔرحمت سے محبت ٭ صحابہ رضی اللہ عنہم کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اشتیاق کااندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس تشریف لائے۔ایک صحابی کو سخت پریشان اور غمزدہ دیکھا تو اس کا سبب پوچھا، اس نے جواب دیا: مجھے ایک بات نے پریشان کررکھا کہ آج آپ ہمارے ساتھ موجود ہیں اور ہمیں آپ کی صحبت حاصل ہے اور آپ سے ملنے کا شوق فراواں ہے۔ لیکن جب ہم یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوجائیں ، ہم جنت میں ہوں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنت کے سب سے اعلیٰ درجہ میں تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے دیکھ سکیں ۔اور اگر ہم جہنم میں چلے گئے تو پھرکیا بنے گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس محبت کرنے والے کو خوش خبری سنائی کہ(( المرء