کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 122
کیا کردار ہونا چاہئے…؟ رحمتہ للعالمین پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کے متعلق فرماتے ہیں :﴿وَمَا أَرْسَلْنٰکَ إِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْن﴾ جس نے اس رحمت کو قبول کیا اور اس نعمت پراللہ کا شکر ادا کیا، وہ دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوا اور جس نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا، اس نے اپنی دنیا و آخرت کو برباد کیا۔ ٭ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث ہے، کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں کے خلاف بددعا کیجئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إني لم أُبعث لعّانًا وإنما بعثتُ رحمۃ)) ( مسلم :۲۵۹۹) ’’مجھے بددعا دینے والانہیں بلکہ رحمت بنا کربھیجا گیا ہے۔‘‘ ٭ ایک حدیث میں ہے : (( أنا رحمۃ مھداۃ)) ( مستدرک حاکم :۱/۹۱) ’’مجھے رحمت کا تحفہ دے کر بھیجا گیا ہے۔‘‘ ٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت صرف انسانوں پر محدود نہیں تھی، بلکہ حیوان بھی اس ابر ِرحمت سے محروم نہ رہے ۔سنن ابی داؤد میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے۔ ہم ایک درخت کے قریب سے گزرے، وہاں پر ایک چڑیا کو اپنے بچوں کے ساتھ گھونسلے میں دیکھا۔ ہم نے اس کے بچوں کو پکڑ لیا۔ پیغمبر رحمت صلی اللہ علیہ وسلم چڑیا پر اس ظلم کو برداشت نہ کرسکے اور بچوں کو واپس رکھنے کا حکم دیا ۔اس لئے کہ وہ دنیا میں عدل و انصاف کا بول بالا کرنے آئے تھے۔افسوس ! ایسے خوبصورت مناظر سے ظالموں کی آنکھیں اندھی ہوگئیں ۔ سید الابرار کی زندگی کے یہ بے مثل واقعات ان کی نظروں سے کیوں اوجھل ہوگئے!! ٭ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے۔کسی دیہاتی نے ایک ہرنی کوجنگل سے پکڑ کر باندھ رکھا تھا ۔ جب ہم وہاں سے گزرے تو دیکھا کہ ایک ہرنی وہاں بندھی ہوئی ہے۔ ہرنی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو شکوہ کناں ہوئی کہ یہ دیہاتی مجھے جنگل سے شکار کرکے لے آیاہے ۔ میرے تھنوں کا دودھ مجھ پر گراں
[1] طلوع اسلام، ۲۳ جولائی ۱۹۵۵، ص۱۳