کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 121
(( إذا تبایعتم بالعینۃ وأخذتم أذناب البقر ورضیتم بالزرع وترکتم الجھاد سلَّط ﷲ علیکم ذلا،لا ینزعہ حتی ترجعوا إلیٰ دینکم)) (ابوداود:۳۴۶۲) ’’جب تم کاروبار میں بیع عینہ٭(سود کی ایک قسم ) کا معاملہ کرنے لگو گے اور بیل کی دمیں پکڑے کھیتی باڑی میں مگن ہو جاؤ گے اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں ذلت و رسوائی میں گرفتار کردے گا اور تم ذلت و رسوائی کی اس اتھاہ وادی اس وقت تک نکل نہیں سکو گے جب تک دین کی طرف پلٹ نہیں آؤ گے۔‘‘ اپنے ماضی ٔرفتہ کو یاد کرو جب مسلمان عزت دار تھے، جب ایک مظلوم عورت کی آواز : وا إسلاماہ‘‘ پر معتصم نے اس کی مدد کے لئے لشکر روانہ کیا ۔ اس عظمت ِرفتہ کو یاد کرو جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے شاہِ روم کو خط لکھتے ہوئے اسے ’’اے روم کے کتے!‘‘کے الفاظ سے مخاطب کیا تھا۔آج ہم ذلت کے گھونٹ پی رہے ہیں ۔ ہمارے احساسات مردہ ہوگئے، ہمارے جذبات سرد پڑگئے۔ گائے کے بیوپاریآج ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اُڑا رہے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور ہم بائیکاٹ کے پمفلٹ ہاتھ میں لئے ان سے معذرت کی بھیک مانگ رہے ہیں ۔ کون سی معذرت؟ اس سے بڑھ کر کوئی بے بسی ہوگی کہ ہم ظلم پر ان سے معذرت کے خواستگار ہیں ،کیوں ؟ اس لئے کہ ہم نے ذلت کا لباس پہن لیا ہے… !! لوگو! اب مسئلہ ڈیری مصنوعات کے بائیکاٹ کا نہیں ، یہ تو ہماری موت اور زندگی کا سوال ہے۔ اب ہمیں موت و حیات میں سے کسی ایک کے انتخاب کافیصلہ کرنا ہوگا۔ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں ، بتاؤ!تاریخ ہمارے بارے میں کیا رائے قائم کرے گی۔ مستقبل کا مؤرخ ہمارے بارے میں لکھے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خیانت کی تھی۔ ہمیں جائزہ لینا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور عظمت کیا ہے اور ان توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے پس پردہ کیا محرکات اور مقاصد کار فرما ہیں اور محبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا __________________ ٭ بیع کی ایسی قسم جس میں کوئی شے ایک خاص وقت تک ادھار بیچی جائے ، پھر وہ شے کسی بہانے کم قیمت پر خریدی جائے ۔